ایک دوا کے ’سنگِ میل‘ تجربے سے ظاہر ہوا ہے کہ اس کے استعمال سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا کچھ مریضوں کی زندگی میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
’نِوالومیب‘ نامی یہ نئی دوا سرطان زدہ خلیوں کو ہمارے جسم کے دفاعی نظام سے چُھپنے سے روکتی ہے اور یوں ہمارے دفاعی خلیے کیسنر والے خلیوں پر حملہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
کیسنر پر کام کرنے والی ’امریکن سوسائٹی آف کلینیکل اونکولوجی‘ کے جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس تجربے کے نتائج ’سرطان کے مریضوں کے لیے نہایت امید افزا‘ ہیں۔
پھیپھڑوں کا سرطان سب سے زیادہ مہلک کینسر ہے اور ہر سال تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اس مرض کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے سرطان کا علاج اس وجہ سے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اکثر اس کی تشخیص دیر میں ہوتی ہے اور سگریٹ نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے شکار افراد میں پھیپھڑوں کے سرطان کا آپریشن مفید ثابت نہیں ہوتا۔
قدرتی مدافعت
آپ کے جسم کے دفاعی نظام میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جسم میں پیدا ہونے والی انفیکشن کا مقابلہ کر سکے اور آپ کا امیون سسٹم اکثر جسم کے ان حصوں پر بھی حملہ آور ہوتا جو درست کام نہیں کر رہے ہوتے، یعنی کیسنر سے متاثر حصوں میں بھی۔
لیکن کیسنر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ٹیومرز کے اندر ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کے دفاعی نظام کو بے بس کر دیتے ہیں۔ کیسنر سے متاثر خلیے یا ’ٹیومرز‘ پی ڈی ایل1 نامی ایک پروٹین پیدا کرتے ہیں جو آپ کے نظام مدافعت کو بند کر دیتی ہے۔
’نِوالومیب‘ دراصل ادویات کے ایک مجموعے کا نام ہے اور مختلف کپمنیاں اس مجموعے میں شامل ادویات کو ’چیک پوائنٹ اِنہبٹرز‘ کے نام سے بنا رہی ہیں۔’چیک پوائنٹ اِنہبٹرز‘ سے مراد ’چوکی پر کھڑے محافظ‘ لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ادویات دراصل سرطان زدہ خلیوں کو آپ کے دفاعی نظام کو بند کرنے سے روکتی ہیں تا کہ آپ کے دفاعی خلیے سرطان زدہ خلیوں پر حملہ کرکے انھیں ختم کر سکیں۔
کیسنر سے متاثر خلیے یا ٹیومرز پی ڈی ایل1 نامی ایک پروٹین پیدا کرتے ہیں جو آپ کے نظام مدافعت کو بند کر دیتے ہیں
یورپ اور امریکہ میں 582 مریضوں پر کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ جنھیں معمول کی ادوایات دی گئیں وہ دوسرے مریضوں کے مقابلے میں 9.4 ماہ زیادہ زندہ رہے، لیکن جن افراد کو ’نِوالومیب‘دی گئی وہ اوسطاً 12.2 ماہ زیادہ زندہ رہے۔
تاہم کچھ مریضوں میں ’نِوالومیب‘ کے اثرات بہت اچھے رہے، مثلاً وہ مریض جن کے جسم میں بہت زیادہ پی ڈی ایل1 پیدا ہو رہی تھی وہ اس دوا کے استعمال کے نتیجے میں 19.4 ماہ زیادہ زندہ رہے۔
’سنگِ میل‘
تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر لوئز پاز ایرس کا تعلق سپین کی ایک یونیورسٹی سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تجرے کے نتائج ’پھیپھڑوں کے سرطان کے علاج میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
’ نِوالومیب ادویات کی وہ پہلی قسم ہے جس نے پھیپھڑوں کے سرطان کے مریضوں میں اتنی زیادہ بہتری دکھائی ہے۔‘
’نِوالومیب‘ گروپ میں شامل ادویات کئی کپمنیاں بنا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک دوا کو تجرباتی بنیادوں پر استعمال کرانے والے برطانوی ڈاکٹر مارٹن فورسٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ میں اس تجربے کے نتائج پر بہت پرجوش ہوں۔ میرا خیال ہے کہ پھیپھڑوں کے سرطان کے علاج میں یہ ادویات ہماری سوچ کو بالکل بدل کے رکھ دیں گی۔‘
ڈاکٹر مارٹن فورسٹر کے بقول پھیپھڑوں کے سرطان میں کیموتھراپی کے ناکام ہو جانے کے بعد ایسے مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات نہایت کم رہ گئے تھے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ان ادویات کے بعد مریضوں کی زندگی میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔‘
’نِوالومیب‘ کےکامیاب تجربے کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی ہمیں کئی بڑے سوالوں کے جواب دینا ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ابھی تک ہمیں یہ نہیں معلوم کہ جسم کے قدرتی نظام مدافعت میں تبدیلی کے اور کیا اثرات پیدا ہو سکتے ہیں اور ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ کن مریضوں پر اس دوا کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور کن پر اس کے خاطر خواہ اثرات نہیں ہوں گے۔
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ’نِوالومیب‘ قسم کی ادویات بہت مہنگی ہوں گی اور ہمیں معلوم نہیں کہ سرکاری ہسپتال یہ ادویات تمام مریضوں کو فراہم کر سکیں گے یا نہیں۔