امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں شبہ ہے کہ 40 لاکھ سرکاری ملازمین کی معلومات چرانے کے لیے کیے گئے سائبر حملے کے پیچھے چینی ہیکرز کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
جمعرات کو آفس آف پرسنل مینجمنٹ نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ موجودہ اور سابق ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق اس کی وجہ سے ہر وفاقی ادارہ متاثر ہو سکتا ہے۔
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن سینیٹر سوزن کولنز نے کہا ہے کہ خیال یہی ہے کہ یہ سائبر حملہ چین سے کیا گیا۔
تاہم واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے خبردار کیا ہے کہ امریکی حکام کو ’اندازے لگانے سے‘ گریز کرنا چاہیے۔
سفارتخانے کے ترجمان زہو ہائیقوان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسی الزام تراشی ’ذمہ دارانہ عمل‘ نہیں اور اس کے غیرتعمیری نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
آفس آف پرسنل مینجمنٹ (او پی ایم) کا ادارہ وفاقی حکومت کے لیے افرادی قوت کے محکمے کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ وفاقی حکومت کے ملازمین کا تمام ریکارڈ محفوظ رکھنے اور سکیورٹی کلیئرنس جاری کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
حکام کے مطابق او پی ایم کے ڈیٹا بیس میں ملازمین کے ذمہ داریاں، کارکرگی کے جائزے، تربیت کے بارے میں معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔
حکام کے مطابق چوری کیے گئے ڈیٹا میں ملازمین کے خاندانی پس منظر اور کلیئرنس کی تفصیلات متاثر نہیں ہوئی ہیں۔
جمعرات کو آفس آف پرسنل مینجمنٹ نے تصدیق کی ہے کہ تقریباً 40 لاکھ موجودہ اور سابقہ ملازمین متاثر ہوئے ہیں
سینیٹر کولنز نے اس حملے کو ’بظاہر بیرونی طاقت کی جانب سے کامیابی سے سکیورٹی کلیئرنس حاصل شدہ افراد کا کھوج لگانے کی کامیاب کوشش‘ قراردیا ہے۔
اوپی ایم نے اپریل 2015 میں آئن سٹائن نامی ایک نئے سائبر سکیورٹی سسٹم کی مدد سے سائبرحملے کی تشخیص کی تھی۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کررہی ہے۔
سائبرسکیورٹی فرم ایکسیڈیم کے چیف سکیورٹی آفیسر کین امون نے تنبیہ کی ہے کہ ہیک کیا گیا ڈیٹا انتہائی اہم معلومات کے حامل وفاقی ملازمین کو بلیک میل کرنے یا ان کی شناخت استعمال کرنے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا۔
کانگریس کے رکن ایڈم شف کا حالیہ حملے کے بارے میں کہا ہے کہ سائبر ڈیٹا بیس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی ’یہ توقع کرتے ہیں کہ وفاقی کمپیوٹر نیٹ ورکس کی دیکھ بھال جنگی بنیادوں پر کی جائے۔‘
ایڈم شف کا کہنا تھا: ’ہیکروں، جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں اور ریاستی عناصر کی جانب سے سائبر حملے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر درپیش چیلنجز میں سے ایک ہے، اور یہ واضح ہے کہ ہماری سائبر ڈیٹا بیس اور اس کا دفاع بری حد تک زائد المعیاد ہوچکے ہیں۔‘
واضح رہے کہ نومبر 2015 میں ایسے ہی ایک سائبر حملے میں ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے 25 ہزار ملازمین سمیت دیگر ہزاروں وفاقی ملازمین سے متعلق دستاویزات منظر عام پر آگئی تھیں۔