کراچی۔ چیف ایگزیکٹیو ڈیو رچرڈسن نے کہا ہے کہ آ ئی سی سی پاکستان میں انٹرنیشنل مقابلوں کی مخالف نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی جائے، میچ آ فیشلز کا معاملہ کسی ٹیم سے بالکل مختلف ہوتا ہے اس لیے پاک زمبابوے سیریز میں ہم نے انھیں نہیں بھیجا،انھوں نے کہا کہ مجھے پاکستان جانا بیحد پسند ہے مگر کاروباری دورے پر امریکا میں موجودگی کے سبب میچز دیکھنے لاہور نہ جا سکا۔ سابق جنوبی افریقی ٹسٹ اسٹارڈیو رچرڈسن نے کہا کہ نظرثانی شدہ گورننس نظام کے تحت ممبران ہی باہمی سیریز و ٹورز کے ذمہ دار ہیں، سیریز کی تصدیق کے بعد ہم صرف میچ آ فیشلز کا تقرر ہی کر سکتے ہیں،انھوں نے مستقبل میں مزید ٹیموں کے ٹور پر کہا کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر ممبر بورڈز کا ہوگا، چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ پاک ۔ہند سیریز بہترین ثابت ہو گی، شائقین ان میچز میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، البتہ کونسل انعقاد کے سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی، یہ2ممبر بورڈز پر منحصر ہے کہ وہ کیا قدم اٹھائیں۔ڈیو رچرڈسن نے ان خیالات کا اظہار دبئی سے نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں کیا، ڈیو ڈچرڈسن نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ آ ئی سی سی پاکستان میں انٹرنیشنل مقابلوں کے احیا سے خوش نہیں، انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کرکٹ کھیلی جائے، لاہور میں پاک زمبابوے سیریز کیلیے سپورٹ نے ایک بار پھر پاکستان میں کھیل کے لیے جوش و خروش ظاہر کر دیا، یہ دنیائے کرکٹ کے لیے بہترین خبر ثابت ہوئی جسے ایک مضبوط اور بالادست پاکستانی ٹیم کی ضرورت ہے۔زم
بابوے کی پوری ٹیم دورے پر آ گئی مگر آ ئی سی سی نے اپنے چند میچ آ فیشلز کو بھی نہ بھیجا، اس سوال پر چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ ٹیم کو لاہور بھیجنے کا فیصلہ زمبابوے کرکٹ کا تھا، وہ یقین دہانیوں اور سیکیورٹی انتظامات سے خوش دکھائی دیے جس کا پی سی بی نے ان سے وعدہ کیا تھا، میچ آ فیشلز کی بات قدرے مختلف ہے، کسی کرکٹ ٹیم کے برخلاف وہ دنیا کے مختلف مقامات سے آ تے ہیں، آ مد و واپسی مختلف وقت پر ہوتی اور وہ ٹیموں سے الگ سفر کرتے ہیں، ان کے حالات کسی ٹیم سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، اس کے باوجود ہم نے صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ میچ آ فیشلز کو پاکستان بھیجنے کا درست وقت نہیں ہے۔ڈیو رچرڈسن نے کہا کہ سیریز کے میچز دیکھنے کے لیے پاکستانی بورڈ نے مجھے مدعو کیا مگر میں ان دنوں کاروباری دورے پر امریکا میں تھا،چونکہ سیریز کی آ خری مراحل میں تصدیق ہوئی لہذا میرے لیے پہلے سے طے شدہ اپنے سفری منصوبوں کو تبدیل کرنا مشکل تھا، انھوں نے کہا کہ مجھے پاکستان آ نا اچھا لگتا اورمیں وہاں جا کر بے حد لطف اندوز ہوتا ہوں،2009میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ پیش آ نے والے واقعے کے بعد میں2بار وہاں جا چکا،پہلی بار2011کی قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں گلابی گیند کی آ زمائش دیکھنے کے لیے گیا، پھر2012میں پی سی بی ایوارڈز تقریب کے سلسلے میں لاہور کا دورہ کیا،اس بار صرف اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے پاک زمبابوے سیریز کے لیے لاہور نہ جا سکا۔ آ ئی سی سی کی جانب سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے احیا میں تعاون کے سوال پر چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ نظرثانی شدہ گورننس نظام کے تحت ممبران ہی باہمی سیریز و ٹورز کے ذمہ دار ہیں، کونسل صرف اپنے میچ آ فیشلز کی سیکیورٹی کی جوابدہ ہے، سیریز کی تصدیق کے بعد ہم صرف انہی کا تقرر کر سکتے ہیں۔
اس سوال پر کہ زمبابوے سے کامیاب سیریز کے بعد کیا دیگر ٹیمیں بھی پاکستان کا دورہ کر سکتی ہیں ڈیو رچرڈسن نے کہا کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر ممبر بورڈز کا ہوگا۔