لیث احمد جب بھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے، اس کی تشویش بڑھ جاتی ہے۔ اس نوجوان عراقی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے چہرے پر داڑھی نہیں اگی اور اس ’جرم‘ میں اسے دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی جیل میں جانا پڑ سکتا ہے۔
حالیہ چند ہفتوں میں اس شدت پسند گروپ کی جانب سے شمالی عراقی شہر موصل میں پرچے بانٹے گئے ہیں، جن میں اعلان کیا گیا ہے کہ یکم جون سے مکمل داڑھی رکھنا لازم قرار دے دیا
گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داڑھی نہ ہونا ایک ’قابل سزا جرم‘ کیوں ہے؟
18 سالہ لیث احمد (جنہوں نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے سزا کے خوف سے اپنا اصل نام ظاہر کرنے سے گریز کیا) کا کہنا ہے، ’’میرے چہرے پر بالوں کی نمو میری عمر کے مقابلے میں سست ہے۔‘‘
احمد کے مطابق، ’’مجھے خوف ہے کہ وہ ہر اس شخص سے انتہائی بے رحمی سے نمٹتے ہیں، جو ان کی ہدایات پر عمل نہ کرے یا مخالفت کرے۔‘‘
شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ نے خودساختہ ’خلافت‘ کا اعلان کر رکھا ہے اور موصل کو ایک طرح سے اس کے دارالخلافے کا درجہ حاصل ہے۔
احمد نے بتایا، ’’میں ایک بیکری میں کام کرتا ہوں اور مجھے ہر روز اپنے گھر سے کام کے لیے نکلنا پڑتا ہے اور داعش (اسلامک اسٹیٹ کے عربی میں نام کا مخفف) کے عسکریت پسندوں سے واسطہ پڑتا ہے۔‘‘
شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا رہنما ابوبکر بغدادی خود کو خلیفہ قرار دیتا ہے
شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا رہنما ابوبکر بغدادی خود کو خلیفہ قرار دیتا ہے
موصل عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے اور تقریباﹰ ایک برس قبل عسکریت پسندوں نے اس دو ملین کی آبادی والے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سے اس گروپ کے عسکریت پسند اس شہر کو اپنی سرگرمیوں کے لیے بنیادی ٹھکانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
دیگر عراقی شہروں کی نسبت موصل میں اب بھی بڑی تعداد میں عام شہری موجود ہیں اور اسی وجہ سے اس علاقے پر امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کو عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
موصل شہر کو یہ شدت پسند تنظیم اپنی ریاست سازی کے لیے ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس شہر میں وہ تعلیم سے لے کر دکانوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات تک طے کرتی ہے۔
لیث احمد نے شدت پسندوں کی جانب سے تقسیم کردہ ایک پرچے سے اقتباس پڑھتے ہوئے کہا، ’’آج کل جو حجام مردوں کی داڑھیاں مونڈنے کا کام کر رہے ہیں، وہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔‘‘
اس پرچے میں پیغمبر اسلام کی ان احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جو داڑھیاں منڈوانے کے خلاف ہیں۔ اس پرچے میں مزید لکھا گیا ہے، ’’اسلامی پولیس کے ہمارے دوستوں کا شکریہ۔ حکم جاری ہو چکا ہے اور داڑھی منڈوانے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اب جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا، اسے حراست میں لے لیا جائے گا۔‘‘
ایسا ہی مسئلہ موصل کے مشرق میں رہنے والے 30 سالہ ٹیکسی ڈرائیور ندیم علی کا ہے۔ وہ اپنی چہرے کی بری جلد کی وجہ سے کبھی مونچھیں یا داڑھی نہ رکھ سکا، کیوں کہ چہرے پر بال اُگانے سے اسے جلد پر شدید خارش کا سامنا ہوتا ہے۔
اس کا کہنا ہے، ’’میں نے انہیں طبی رپورٹیں دکھائیں مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر داڑھی صاف کرواؤ تو پھرگھر سے باہر مت نکلنا۔‘‘
ندیم علی کا مزید کہنا ہے، ’’اپنے اہل خانہ کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے، اب میرے پاس یہی راستہ ہے کہ میں جلد کی خارش کی پرواہ نہ کروں اور بیمار پڑ جاؤں، کیوں کہ دوسری صورت میں مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔‘‘