ڈھاکہ۔بنگلہ دیش کے خلاف بدھ سے شروع ہو رہی کرکٹ سیریز کیلئے وراٹ کوہلی کی قیادت والی ہندوستانی کرکٹ ٹیم آج ڈھاکہ پہنچ گئی۔اس سیریز میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیمیں واحد ٹسٹ کے بعد تین روزہ بین الاقوامی کرکٹ میچ کھیلے گی۔ ہندوستان کی 14رکنی ٹیم کولکاتا سے ڈھاکہ کیلئے روانہ ہوئی جہاں ٹیم سیریز سے پہلے ایک کیمپ میں حصہ لے رہی تھی۔آسٹریلیا کے دورے کے دوران اچانک مہندر سنگھ دھونی کے ٹسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والے واحد ٹسٹ میچ
میں وراٹ کوہلی پہلی بار کل وقتی کپتان کے طور پر کھیلے گی۔ ٹسٹ ٹیم میں شامل کے ایل راہل ڈینگو بخار کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہیں جا سکے۔آف اسپنر ہربھجن سنگھ دو سال بعد ہندوستانی ٹیم میں واپسی کر رہے ہیں۔ انہوں نے آخری بین الاقوامی میچ مارچ 2013 میں کھیلا تھا۔ہندوستان نے بنگلہ دیش کے خلاف اب تک سات میچ کھیلے ہیں جس میں چھ میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ ایک میچ ڈرا رہا تھا۔تمام ٹسٹ میچ بنگلہ دیش میں کھیلے گئے ہیں اور آخری بار دونوں ٹیمیں 2009-2010 میں دو طرفہ سیریز ایک دوسرے سے بھڑیں تھی۔ ہندوستان نے اس سیریز کو 2-0 سے جیت لیا تھا۔وہیں دوسری جانبکوہلی ابھی 26 سال کے ہیں اور دھونی سے سات سال چھوٹے ہیں۔وراٹ کوہلی بین الاقوامی کرکٹ کے اسٹار کھلاڑی ہیں، اور اب ان کے سامنے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی اور ٹیم کو بری عادتوں سے نکالنے کی ذمہ داری بھی عائد ہو گئی ہے۔کسی بھی دوسرے کھیل کی طرح کرکٹ میں بھی دو قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں۔فاش غلطی پس و پیش والی سوچ، توجہ کی عدم موجودگی اور حکمت عملی کی ناسمجھی سے پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ اچھی غلطی کسی اچھی طرح سے سوچے سمجھے منصوبے یا پھر کسی چیز کے الٹ جانے سے ہوتی ہے۔جوں جوں ہندوستان کے سب سے تجربہ کار اور کامیاب کپتان مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی آگے بڑھتی گئی، وہ فاش غلطیاں کرتے گئے۔ مثال کے طور پر بولروں کو ایک اوور کے بعد تبدیل کر دینا، یا لیگ گلی پر کسی کھلاڑی کو کھڑا کرکے ایک فیلڈر ضائع کرنا۔اچھی قسمت اور اندھیرے میں نشانہ لگانا آپ کو ایک حد تک لے جاتا ہے۔ کھیل کی تاریخ میں ہر کپتان نے بولنگ میں ناقابل وضاحت تبدیلی کر کے یا بیٹنگ کے نمبر اوپر نیچے کر کے خطرات مول لیے ہیں اور اس کی بدولت جیت حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا ہے لیکن یہ کپتانی کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔کوہلی ابھی 26 سال کے ہیں اور دھونی سے سات سال چھوٹے ہیں۔ وہ حکمت عملی کی سطح پر ابھی خام ہو سکتے ہیں لیکن دو چیزیں ان کے حق میں جاتی ہیں ایک مثبت رویہ اور دوسرے زبردست خود اعتمادی۔سابق ہندوستانی کرکٹ کپتان ٹائیگر منصور علی خاں پٹودی کے بعد سے کسی بھی ہندوستانی ٹیم نے جیت کی جستجو میں ہار کو اس طرح گلے نہیں لگایا جس طرح کوہلی نے آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹسٹ میں دسمبر سنہ 2014 میں کیا۔ماضی اور مستقبل میں جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ دھونی ڈھلان پر ہیں، جبکہ کوہلی میں صرف بہتری ہو سکتی ہے۔انھیں ان تمام مشکلات کا سامنا ہو گا جو دھونی کو پیش آئیں، جیسے خراب بولنگ اٹیک، بطور خاص بیرونی سر زمین پر، ایک دن میں 50 اووروں سے زیادہ عرصے تک فیلڈ میں رہنا اور مختصر فارمیٹ کے کھیل میں جیت ٹسٹ میچ کی ناکامی کو پورا کر دے گی، وغیرہ۔آسٹریلیا کے گذشتہ دورے سے قبل ہندوستان کو 17 میں سے 13 میچوں میں شکست ہوئی ہے اور 14 ویں شکست ایڈیلیڈ میں ملی جہاں کوہلی پہلی بار کپتانی کر رہے تھے۔ لیکن اس ہار کا رنگ مختلف تھا۔یہاں ٹالسٹائی کے ناول آنا کرینینا کا اصول عائد ہوتا ہے کہ ’تمام خوش و خرم خاندان ایک طرح کے ہوتے ہیں جبکہ تمام ناخوش خاندان اپنے اپنے اعتبار سے پریشان ہوتے ہیں۔‘اسی طرح تمام فتوحات یکساں ہوتی ہیں، لیکن ہر شکست منفرد ہوتی ہے۔ہندوستان ایک دن میں 364 رنز بنانے کے اعزاز کے لیے نکل پڑا تھا اور اس کے بہت قریب بھی پہنچ گیا تھا۔کوہلی نے کہا کہ ڈرا کے لیے کھیلنا کوئی متبادل نہیں تھا۔ شاید وہ اس بات سے واقف تھے کہ بھارت کے پاس میچ جیتنے کے لیے بلے باز تو ہیں لیکن میچ کو ڈرا کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ اس میں پھر بھی ایک موقع تھا۔ رجائیت وبا کی طرح ہے اور یہ ایسے کپتان کو ضرور لگ سکتی ہے جو اس سے پْر ہو۔کوہلی نے جب سے ہندوستان کو انڈر 19 عالمی کپ میں فتح سے ہمکنار کیا تب سے ان میں یہ چیز نظر آتی ہے اور انھیں مستقبل کے کپتان کے طور پر نشان زد کر لیا گیا۔اپنے بہت سے طریقے اپنانے کے بعد کوہلی میں اب ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ ان کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور کے کوچ رے جیننگز نے انھیں بتایا کہ ان کی انڈر 19 کی جیت جلد بھلا دی جائے گی اور انھیں ایک بالغ کرکٹر کے طور پر دیکھا جائے گا۔ انیل کمبلے نے اس توانائی کو درست سمت میں مرکوز کرنے میں تعاون کیا اور انھیں بڑے کام کی امید میں کپتان بنا دیا گیا۔ون ڈے میں کوہلی کی کپتانی جیت حاصل کرنے کی اور جارحانہ رہی ہے اور ٹسٹ میں ابھی انھیں سیکھنا ہے اور ان کے بولروں کو بھی صبر اور طویل مدتی حکمت عملی سیکھنی ہے۔بھارتی کرکٹ کو دھونی کی چیزوں کو نکلتے جانے دینے کی عادت اور کوہلی کی جلد بازی کی طبیعت کے درمیان توازن تلاش کرنا ہو گا۔ طویل دورانیے کے کھیل میں مچھلی پکڑنے کی حکمت عملی کا عنصر ہے۔ آپ چارہ ڈال دیتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں اور کوہلی کو انتظار کا کھیل سیکھنا ہے۔یاتو یہ مختصر فارمیٹ اور بہت زیادہ میچ کھیلنے کا نتیجہ ہے یا پھر رویے کا معاملہ ہے، بات کچھ بھی ہو بھرتی کرکٹ بے صبری سے دو چار ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیت سے کم مظاہرہ کر رہی ہے۔کوہلی کو یہ برتری حاصل ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے بہترین بلے باز ہیں اور اس کام کے لیے کوئی دوسرا بہت نزدیکی دعویدار نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں انھیں کپتان کے طور پر خود کو سنوارنے کا پورا موقع ہو گا اور انھیں بار بار پلٹ کر نہ دیکھنا ہوگا جیسا کہ سابق ہندوستانی کپتانوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔