فون ٹےاپنگ….اور گھر کے بھےدی؟
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔
آندھراپردیش تقسیم ہوگیا۔
دو رےاستیں وجود میں آگئیں۔ دونوں نے اپنے پہلے سال کی تکمیل کی‘ مگر باہمی نفرت، رقابت برقرار ہے بلکہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے۔ دونوں رےاستوں کے وزراءاعلیٰ دو دےرےنہ دشمن پڑوسیوں کی طرح ایک دوسرے سے نبرد آزما ہےں۔
تلنگانہ قانون ساز کونسل کے انتخابات میں تلنگانہ کے ارکان سے ”نوٹ کے بدلے ووٹ“حاصل کرنے تلگودےشم کی مبےنہ سازش کے بےن قاب ہونے کے بعد معاملہ نے طوالت اور شدت اختےار کرلی ہے جبکہ اسٹیفنس آڈیوٹےپ منظر عام پر لاےا گیا جس سے ”نوٹ کے بدلے ووٹ“ معاملہ میں چندرا بابو نائیڈو کے ملوث پائے جانے کو ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحقےقات تو ہوںگی‘ حقائق آج نہیں تو کل منظر عام پر آجائےںگے‘ تاہم اس وقت تک دونوں رےاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہی نہیں حکومتوں کا نظم و نسق بھی متاثر رہے گی۔ لفظی تکرار، الزامات، جوابی الزامات میں اُلجھ کر رہ جانے کی وجہ سے سےاسی قائدین کی اپنی توجہ عوامی مسائل پر مکمل طور پر مرکوز نہیں رہے گا۔ وہیں عوام کی توجہ بھی حکومت کی کارکردگی کے مقابلہ میں ان کے آپسی ٹکراﺅ پر رہے گی۔
ےہ واقعات اےک اےسے وقت رونما ہورہے ہےں جب دونوں رےاستیں اپنی پہلی سالگرہ کا جشن منارہی ہےں۔ عوام کے سی آر، بابو کے اختلافات اور ذرائع ابلاغ کے ذرےعہ چھیڑی گئی جنگ میں اس قدر الجھ گئے ہےں کہ انہیں دونوں رےاستوں کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لےنے کا بھی موقع نہیں مل سکا۔
کے سی آر‘ آندھرا کے وزےر اعلیٰ بابو کے مقابلہ میں کہیں زےادہ کامےاب مطمئن اور مسرور ہےں‘ کیوں کہ تلنگانہ کی تشکیل ان کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ ےہ ان کی کامےابی کی سالگرہ ہے۔ دوسری طرف چندرا بابو نائیڈو کے لئے ان کی حکومت کا پہلا سال تو مکمل ہوا مگر نہ تو آندھراپردیش کے عوام خوش ہےں اور نہ خود بابو‘ کیوں کہ آندھرا اور رائلسےما کے عوام رےاست کی تقسیم کے مخالف رہے ہےں۔ ےہی وجہ ہے کہ پہلے سال کا جشن کم مناےا گیا‘ غم زےادہ۔ رےونت رےڈی کی گرفتاری، چندرا بابو نائیڈو کے آڈیو ٹیپ کے منظر عام پر آنے کے بعد رےاست کی تقسیم کا غم بھی بڑھا‘ زخم بھی ہرا ہوگیا۔
چندرا بابو نائیڈو اقتدار کے باوجود ”تنہا“ ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف جگن موہن ریڈی دوسری طرف کانگریس اس بحران اور نازک ترین مرحلہ میں ان سے اپنا حساب بےباق کرنے میں لگی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو مرکزی حکومت کے حلیف ہےں۔ وزےر اعظم نرےندر مودی سے قربت ہے تاہم بی جے پی اس نازک ترین آزمائشی مرحلہ میں اپنا دامن بچائے رکھے گی‘ کیوں کہ وہ کانگریس کی پیش رو ”سوٹ کیس“ حکومت کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہے۔ صاف ستھری، رشوت خوری، بے قاعدگیوں، بدعنوانیوں سے پاک و صاف انتظامےہ و حکومت کا وہ وعدہ کررہی ہے۔ اگر اس مرحلہ پر وہ چندرا بابو نائیڈو کی پشت پناہی کرتی ہے تو خود اس کی اپنی ساکھ متاثر ہونے کا اندےشہ رہتا ہے۔
بابو کے مقابلہ میں آج کی تاریخ میں کے سی آر کو اپنی رےاست کی اپوزیشن جماعتوں کی بھی اخلاقی طور پر تائید و حمایت حاصل ہے جس سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
چندرا بابو نائیڈو نے کے سی آر پر ان کی جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے۔ ہندوستان کی سےاسی تاریخ میں فون ٹےاپنگ ےا سےاسی قائدین کی نگرانی اور جاسوسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
1965ءاور 1968 کے دوران فون ٹےاپنگ کے واقعات کا انکشاف پہلی بار ہوا تھا جب امریکی حکومت کی جانب سے مارٹن لوتھر کنگ کے فون ٹیپ کئے گئے تھے۔ جب ڈیجیٹل ٹکنالوجی عام ہوئی اور موبائل فونس کا چلن شروع ہوا فون ٹےاپنگ بہت آسان ہوگئی ہے۔ 1995ءمیں Bell’s South Advance Tech کے رےسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے Wayne Howe اور Dale Malik نے اڈوانس انٹلی جنٹ نےٹ ورک AIN کی اےجاد کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس ٹکنالوجی نے ترقی کی اور اب فون ٹےاپنگ سافٹ وےر بھی آچکے ہےں جس میں کال خود بخود ٹیپ کی جاتی ہے۔ Pen register اور Trap & Trace Device کے استعمال سے کیبل ٹی وی نےٹ ورکس فون ٹےاپنگ کرتے ہےں جس کی وجہ سے کئی بڑے بڑے اسکامس بے نقاب ہوئے ہےں۔
جہاں تک ہندوستان میں فون ٹےاپنگ کا تعلق ہے‘ اکتوبر 2007ءمیں بہار کے وزےر اعلیٰ نتےش کمار کا فون ٹیپ کےا گیا تھا حالانکہ ےہ فون کسی اور عہدہ دار کا تھا جس کے ذرےعہ نتےش کمار مرکزی فنڈز کے حصول سے متعلق بات چیت کررہے تھے۔ اسی سال ڈگ وجئے سنگھ کا فون ٹیپ کےا گیا جس میں انتخابی امےدواروں سے متعلق وہ ایک رےاست کے وزےر اعلیٰ سے بات کررہے تھے۔ 2008ءمیں پرکاش کرات کی فون پر بات چیت خفےہ طور پر رےکارڈ کی گئی جب وہ ہند۔امرےکہ نےوکلیر معاملت سے متعلق حکمت عملی پر بات کررہے تھے۔ 2010ءمیں آئی پی ایل کے سربراہ للت مودی کی بات چیت ٹیپ کی گئی تھی جس کی اساس پر شرد پوار کو للت کو عہدہ سے ہٹانا پڑا تھا۔
مسٹر نرےندر مودی کے وزےر اعظم بننے سے کچھ عرصہ پہلے گجرات کی ایک خاتون کی جاسوسی ےا نگرانی کا تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ امےت شاہ نے مبےنہ طور پر فون پر کسی ”صاحب “کا ذکر کیا تھا جن کی ہدایت پر اس خاتون کی نگرانی کی گئی تھی۔ کافی عرصہ تک ےہ معاملہ مےڈےا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔
راڈےہ ٹیپس نے کئی سےاستدانوں، فنکاروں کی پول کھول دی تھی۔ کئی صحافی بھی بے نقاب ہوئے تھے۔ بہرحال چندرا بابو نائیڈو کے فون ٹےاپنگ کا واقعہ کوئی نےا نہیں ہے۔ ایک رےاست کے وزےر اعلیٰ کے فون‘ دوسری رےاست کی جانب سے ٹیپ کئے جانے سے متعلق کےا فےصلہ ہوتا ہے ےہ آنے والا وقت بتائے گا۔ دستور ہند کی دفعہ 21کے تحت کسی بھی فرد کو اس کی زندگی اور شخصی آزادی سے محروم نہیں کےا جاسکتا۔ شخصی آزادی سے مراد اس کی Privacy بھی ہے۔ تاہم ناگزےر حالات میں انڈین ٹےلی گرافک ایکٹ 1885 کی دفعہ (2)5 کے تحت مرکز اور رےاست حکومتوں کو مشکوک افراد کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت ہے۔ چندرابابو نائیڈو کا فون ٹیپ کرنے کاحکومت تلنگانہ کو اختےار ہے ےا نہیں ےہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ اصل سوال تو ےہ ہے کہ بابو کا فون ٹیپ کےسے ہوا؟ ان کے گھر کا بھیدی کون ہے جو ان کی لنکا کو ڈھانے میں مددگار ثابت ہوا۔ ”اندرونی“ اورقریبی بااعتماد افراد کی مدد کے بغےر ایک رےاست کے وزےر اعلیٰ کے فون ٹیپ کرنا آسان نہیں ہے۔ رےونت ریڈی معاملہ میں کون کون ملوث ہےں اور اسے منظر عام پر لانے کے لئے ”بابو“ کے کن قریبی عناصر نے اہم رول ادا کیا ےہ منظر عام پر آنا چاہئے اور جب ےہ حقائق منظر عام پر آئےںگے تو بابو کو اور بھی زےادہ تکلیف پہنچے گی۔ کسی کی اعتماد شکنی کی وجہ سے۔سےاست ہو ےا کوئی اور شعبہ‘ ہمیشہ بہت زےادہ قابل اعتماد لوگ ہی نقصان پہنچاتے ہےں ےا تختہ اُلٹ دےتے ہےں۔ عام طور پر سےاست دانوں اور بڑے صنعت کاروں کے ڈرائیورس، سےکوریٹی گارڈس، گھریلو ملازمین جن سے عموماً ےہ بڑے لوگ کوئی بات بھی راز میں نہیں رکھتے‘وہ اپنے مفادات کی خاطر اےسے راز ان کے سےاسی اور کاروباری حریفوں کو فروخت کردےتے ہےں۔ چندرا بابو نائیڈو کے معاملہ میں بھی کچھ اےسا ہی لگتا ہے۔