وھران ۔ عبدالجبار بن یحیٰ
فلسطینیوں سے نفرت اور دشمنی صرف صہیونی ایوان سیاست وحکومت اور فوج یا انتہا پسند یہودی گروپوں تک محدود نہیں بلکہ اس باب میں ملک کا روشن خیال طبقہ سمجھا جانے والا شوبز کا شعبہ بھی فلسطینیوں سے نفرت کی آگ میں برابر جلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں فلسطینی سینما میں تیار ہونے والی ایک یہودی فلم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہودی سینما میں تیار کی گئی فلم میں الخلیل کی تاریخی جامع مسجد الخلیل میں نماز فجر کے وقت انتیس فلسطینیوں کو شہید اور ڈیڑھ سو کو زخمی کرنے والے یہودی دہشت گرد کو “ہیرو” قرار دیا گیا ہے۔
فلسطینی فلم”عیون الحرامیہ” کی خاتون پروڈیوسر نجویٰ النجار نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا کہ “عیون الحرامیہ” میں ہم نے حقائق سے نقاب کشائی کی کوشش کی ہے جس میں اس فلم کے مرکزی کردار فلسطینی کو “ہیرو” کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود فلم نے صہیونی فلم انڈسٹری کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیلیوں نے ایک فلم تیار کی ہے جس میں جامع مسجد الخلیل میں فلسطینی نمازیوں کے قاتل جنونی یہودی” باروخ گولڈشٹائن کو “ہیرو” کا درجہ دریا گیا ہے۔
خیال رہے کہ “عیون الحرامیہ” رام اللہ اور نابلس کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ اس کی وجہ شہرت تین مارچ سنہ 2002ء کو ایک فلسطینی ثائرحماد کےہاتھوں ایک درجن کے قریب یہودیوں کا قتل ہے۔ جسے فلسطینی تاریخ میں “عیون الحرامیہ کارروائی” کا نام دیا جاتا ہے۔ حماد نے اس کارروائی میں جنگ عظیم دوم کے دور کی ایک پرانی بندوق استعمال کرتے ہوئے کم سے کم 10 یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
اگرچہ اس فلم میں حقائق کی منظرکشی کی کوشش کی گئی ہے تاہم یہودی سینما اس پرنہ صرف سیخ پا ہے بلکہ ایک آدھ فلم بھی تیار کرڈالی ہے جس میں پچیس فروری 1994ء کے ایک وحشیانہ واقعے کے مرکزی کردار یہودی “باروخ گولڈشٹائن” کو “ہیرو” قراردیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پچیس مارچ اور ماہ صیام میں جمعہ کے روز نما فجرکے وقت پیش آیا جب باروخ نے الخلیل شہرمیں مسلمانوں کے تاریخی مقام حرم ابراہیمی میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں کم سے کم 29 نمازی شہید اور 150 زخمی ہوگئے تھے۔