افغانستان میں ایک عدالت نے ان چار افراد کی سزائے موت منسوخ کر دی ہے جنھیں مارچ میں ایک مشتعل ہجوم کے ساتھ مل کر ایک عورت کو ہلاک کرنے کے الزام میں قصوروار پایا گیا تھا۔
رواں سال 19 مارچ کو دارالحکومت کابل کے وسط میں ایک مزار پر 28 سالہ فرخندہ کو لوگوں نے قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے الزام میں سنگسار کر کے ہلاک کردیا تھا اور یہ چاروں افراد اس واقعے میں مرکزی کردار تھے۔ فرخندہ کی لاش کو گاڑی تلے روندا گیا اور بعد میں آگ لگا دی گئی۔ اس واقعے کے بعد خواتین کے خلاف ناروا سلوک پر وسیع پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے تھے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس فیصلے پر غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق فرخندہ نے شاہ دو شمشائرہ مزار پر خواتین کو تعويذ گنڈے فروخت کیے جانے کی مخالفت کی تھی اور وہیں کے تعویذ فروخت کرنے والے نے ان پر جھوٹے الزام لگائے تھے۔ یہ مزار ایوان صدر اور کابل کے اہم بازار سے زیادہ دور نہیں ہے۔
فرخندہ کے قتل کے معاملے میں عدالت نے چھ مئی کو چار افراد کو موت کی سزا سنائیتھی جن میں وہ تعویذ بیچنے والا بھی شامل ہے۔
عدالت میں کل 49 لوگوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے چار دن کی سماعت کے بعد ہی اپنا پہلا فیصلہ سنا دیا تھا۔
اس معاملے میں آٹھ لوگوں کو 16 سال قید کی سزا بھی ہوئی ہے اور آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد کو الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔ بعد میں عدالت نے 11 پولیس اہلکاروں کو خاتون کو مشتعل ہجوم سے بچانے میں ناکامی کے الزام میں ایک ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت میں چند ملزمان کے اعترافی بیان پڑھ کر سنائے گئے جن میں انھوں نے اعتراف کیا کہ انھوں نے فرخندہ پر حملہ قرآن جلانے کے الزام کی وجہ سے کیا۔
ایک سرکاری تفتیش کار کے مطابق ایسے شواہد نہیں ملے جس سے یہ ثابت ہو کہ فرخندہ نے قرآن مجید کو نذر آتش کیا ہو۔