ترکی میں چینی حکومت کی جانب سے اویغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی پر احتجاج کے دوران کئی چینی سیاحوں پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں چین نے اپنے شہریوں کے لیے سفری انتباہ جاری کیے ہیں۔
گذشتہ دنوں میں سینکڑوں مظاہرین نے استنبول میں چینی سفارت خانے کے باہر جمع ہو کر مظاہرے کیے ہیں۔
چین نے چینی سیاحوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اکیلے باہر نہ جائیں اور مظاہروں کی فلمنگ نہ کریں۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے مسلمانوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کو بہت اہمیت دی ہے اور ان کا مکمل طور پر احترام کیا ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق مغربی میڈیا میں شائع کی جانے والے یہ الزامات ’حقیقت کے بالکل برعکس ہیں‘ کہ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں حالیہ رمضان کے دوران مذہبی رسومات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ترکی کے مسلمانوں اور چینی اویغوروں کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہیں۔
مبینہ طور پر چین کی جانب سے اویغوروں پر روزہ رکھنے اور عبادت کرنے پر پابندی عائد کرنے کی خبروں کے بعد گذشتہ ہفتے ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں چینی سفیر کو طلب کیا گیا تھا۔
سنکیانگ میں حالیہ برسوں میں ہونے والے تشدد میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ چین وہاں کے اسلامی شدت پسند گروہوں کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن اویغوروں کا کہنا ہے کہ شورش کی وجہ بیجنگ کی طرف سے ان کے خلاف جابرانہ پالیسیاں ہیں۔
گزشتہ دنوں سینکڑوں مظاہرین نے استنبول میں قائم چینی سفارتخانے کے باہر ویغور مسلمانوں کے ساتھ مبینہ طور پر برا سلوک ہونے کے خلاف احتجاج کیا۔
اتوار کے روز چینی سفارت خانے کے باہر مظاہرین جمع ہوئے جنھوں نے چینی پرچم نذرِ آتش کیا۔ انھوں نے ہاتھوں میں بینر تھام رکھے تھے جن پر لکھا تھا: ’ترکی، اپنے بھائی کو بچاؤ۔‘ ’چین: مشرق ترکستان سے نکلو۔‘
سنہ 1949 میں چین نے مشرق ترکستان کی ریاست کو کچل دیا تھا اور سنہ 1955 میں ’سنکیانگ اویغور خود مختار علاقہ‘ قائم کیا۔
چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی میں حال ہی میں چینی حکومت کے خلاف ’بکثرت‘ مظاہرے ہوئے ہیں اور ’کئی‘ چینی سیاحوں پر حملہ ہوا ہے۔
ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق کوریا سے تعلق رکھنے والے بعض سیاحوں کو چینی سمجھ کر ان پر بھی حملہ کیا گیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے استعمال سے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔
null
ترکی کے مسلمانوں اور چین میں رہنے والے اویغوروں کے قریبی ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہیں
چین کے اس اعلان کے بعد کہ ’شدت پسندی کی جڑ مذہبی انتہاپسندی میں ہے،‘ گذشتہ سال سنکیانگ میں کریک ڈاؤن ہوا تھا۔
کئی علاقوں میں حکومت نے اویغوروں کے چاقو خریدنے پر اور خواتین کے پردہ کرنے پہ پابندی لگائی ہے، اور سڑکوں، شاپنگ مالز اور مارکیٹوں کے قریب سکیورٹی چیک پوائنٹ قائم کیے گئے ہیں۔
طالب علموں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں رمضان کے دوران روزہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور اسی طری سرکاری ملازمین پر بھی پابندیاں رہی ہیں۔
ترکی میں چینی سفارت خانے کے باہر مظاہروں میں چینی پرچم نذرِ آتش کیا گیا