حرم مکی کے توسیعی منصوبوں کے مراحل کے مناظر کو دیکھتے ہوئے زائرین و معتمرین کے اذہان میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کونسا راز ہے جو شدید گرمی میں عین دوپہر کو جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے زائرین کعبہ کے پائوں اس تپتے فرش پر کیوں کر محفوظ رہتے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ حرم مکی کے بیرونی احاطوں میں جہاں کوئی سائبان بھی نہیں فرش کو کیسے ٹھنڈا رکھا جاتا ہے؟
ماہ صیام میں “العربیہ”کی اسکرین پر رمضان المبارک کے خصوصی پروگرام “حرمین شریفین سے” کی تازہ قسط میں اسی راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
حرم مکی میں خدمات سرانجام دینے والے ایک اہلکار کے مطابق “حرم شریف کے خدام کے پیش نظر چونکہ زائرین کعبہ کو ہر ممکن سکون اور سہولت مہیا کرنا ہے۔ اس لیے ہر دور میں حرم شریف کے بیرونی فرش کو دن کے اوقات میں ٹھنڈا رکھنے کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے اہم خصوصیات کے حامل سنگ مرمر کو تلاش کیا جو سخت گرمی میں بھی کم سے کم گرم ہونے کی خصوصیت کا حامل ہو۔”
“مسجد حرام کے بیرونی اور اندرونی حصوں میں فرش کے لیے تین قسم کے سنگ مرمر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں خاص طو پر ‘تاسس’ کے نام سے مشہور سنگ مرمر دوسروں کی نسبت گرمی زیادہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ پتھر زیادہ درجہ حرارت میں دوسرے پتھروں کی نسبت فرش کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتا ہے اور فرش کا درجہ حرارت معتدل رکھتا ہے۔
“تاسس” سنگ مرمر کی سیلوں سے حرم مکی کی زمین کو ڈھانپنے سے زمین کے اندر کی ٹھنڈک اور رطوبت باہر کی طرف نکلتی ہے اور اس پتھر کی سطح کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیتی ہے۔”
“دوسری قسم کا سنگ مرمر’جرنی’ کہلاتا ہے جو روشنی اور گرمی دونوں کو جذب کرتا ہے۔ حرم مکی میں زیادہ تر’التاسس’ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ماہرین تعمیرات سنگ مرمر کی سیلوں کی جائے نماز کی شکل میں تراش خراش کے بعد نہایت خوبصورتی سے اسے خانہ کعبہ کی سمت میں نماز کی صف کی شکل میں نصب کرتے جاتے ہیں۔ ایک سل کی لمبائی 120 سینٹی میٹر، چوڑائی 60 سینٹی میٹر رکھی جاتی ہے جب کہ سنگ مرمر کی ایک سل کی موٹائی پانچ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ حرم کی کی صفائی اور مرمت کے کاموں کے دوران سنگ مرمر کی اکھاڑ پچھاڑ بھی لگی رہتی اور پتھروں کو ایک دوسرے کی جگہوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
“التاسس” نامی یہ سنگ مرمر نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مہنگا بھی ہے۔ حرم مکی کے لیے یہ سنگ مرمر خاص طور پر یونان سے لایا گیا ہے۔