شام اور عراق میں سرگرم دولت اسلامی”داعش” دنیا بھرسے اپنی صفوں میں صرف جنگجو بھرتی کر رہی ہے بلکہ ماہرین صحت سمیت کئی دوسرے شعبوں سے وابستہ ماہرین کو بھی ورغلا کر تنظیم میں شامل کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں سوڈانی وزارت خارجہ کے ترجمان علی الصادق نے بتایا کہ ان کے ملک سے 18 ڈاکٹر “داعش” میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان ڈاکٹروں کی شمولیت بھی مختلف شعبوں کے ماہرین کی تنظیم میں شمولیت کی مہمات کا حصہ ہے۔ ان میں ڈاکٹروں کے علاوہ نرسیں اور فنی شعبے دیگر ماہرین شامل ہیں۔
ماہرین کو بہلا پھسلا کر اپنی صفوں میں شامل کرنے کا رحجان صرف داعش کے ہاں ہی نہیں بلکہ یہ کام دنیا بھر کی تمام دہشت گرد تنظیمیں کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں “انسانی ہمدردی” کی بنیاد پر دوسروں کو ورغلانا، شورش زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کی طبی نگہداشت کا ڈرامہ رچا کر ماہرین صحت کو اپنوں صفوں میں شامل کرنا داعش سمیت تمام شدت پسند گروپوں کا وطیرہ ہے۔ انہیں اس بہانے سے تھوک کے حساب سے ہمدرد میسر بھی آ جاتے ہیں۔
بمبار ڈاکٹر
داعش کی صفوں میں شامل ہونے والے تمام ڈاکٹر ایسے نہیں جو صرف زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے تک اپنی خدمات محدود رکھتے ہوں بلکہ ان میں سعودی عرب کے فیصل شامان العنزی جیسے “بمبار اطباء” بھی شامل ہیں۔ اگرچہ العنزی بھی داعش کی صفوں میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے شامل ہوا تھا مگر 11 جولائی 2014ء کو اس نے عراق کی کرکوک گورنری میں ایک خودکش حملے میں نہ صرف خود کو اڑا لیا بلکہ اپنے ساتھ 30 اور افراد کی بھی جان لے لی۔
فیصل شامان العنزی واحد ڈاکٹر نہیں جو مخالفین پر خودکش بمبار بن کر برس پڑا بلکہ اس سے قبل مشاری عبداللہ القماصی العنزی نامی ماہر امراض قلب نے بھی وہی کچھ کیا جو فیصل العنزی نے کر دکھایا۔ القماصی العنزی کو “داعش” کے ہاں “ابو سماک الجزراوی” کی کنیت سے جانا جاتا تھا۔ اس نے نومبر 2013ء کو یوم عاشورہ کے موقع پر خود کو عراق کے تل حاصل کے مقام پر بارود سے اڑا دیا۔
سعودی عرب ہی سے تعلق رکھنے والے محمد آل شریبہ العیسری المعروف “ابو عمر الازدی” بھی ڈاکٹر ہی کے طور پر داعش میں شامل ہوا۔ اس نے امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کی جامعات سے کینسرکے امراض کے علاج کی تعلیم حاصل کی لیکن داعش میں شامل ہونے کے بعد اس نے شام کے حلب شہر کی سینٹرل جیل پر حملے میں مدد کی۔ “منگ” نامی فوجی اڈے پر حملے میں بھی وہ شام تھا اور آخر کار وہ اکتوبر 2013ء کو الغوطہ کے مقام پر راکٹ حملے میں ہلاک ہوا۔
داعش ہی میں شامل ہونے والے ایک دوسرے بمبار ڈاکٹر عثمان ابو القیعان کا تعلق فلسطین سے تھا۔ اس نے طب کی تعلیم اردن سے حاصل کی تھی اور کچھ عرصہ اسرائیل کے ایک اسپتال میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ القیعان اگست 2014ء کو شام میں محاذ جنگ پر لڑتے ہوئے مارا گیا۔
خودکش ڈینٹل سرجن 37 سالہ وسام محمد العطل نے شمالی غزہ میں جبالیا پناہ گزین کیمپ میں ایک سیکیورٹی چیک پوسٹ پر خود کو بارود سے بھری کار کے ساتھ دھماکے سے اڑا دیا۔ العطل شام میں داعش کے زیر انتظام علاقوں میں تنظیم کے زیر سر پرستی زخمیوں کا علاج کر چکا تھا۔
داعش کی خوش قسمتی ہے کہ اسے امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دوسرے مغربی ملکوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین صحت بڑی تعداد میں مل رہے ہیں۔ حال ہی میں داعش کی جانب سے جاری ایک فوٹیج میں “آسٹریلو طارق الکاملہ” نامی ایک چائلڈ اسپیشلسٹ کو دکھایا گیا۔ اس نے مارچ 2015ء کو شام کی طرف سفر کیا۔اس سے قبل برطانیہ کا احمد ابو صباح بھی ان نو جنگجوئوں میں سے ایک تھا جو “داعش” میں شامل ہونے کے لیے شام آئے تھے۔
داعش کے میڈیکل کالج کا قیام
“داعش” نے شام اور عراق میں اپنے زیر تسلط علاقوں میں جہاں سخت نوعیت کے شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کررکھا ہے وہیں تنظیم دور حاضر کے طریقہ علاج سے بے پرواہ نہیں۔ اس مقصد کے لیے داعش نے عرب اور غیر عرب نوجوانوں کو طب کی تعلیم دلوانے کے کے لیے میڈیکل کالج کے نام سے ادارہ بھی تشکیل دے رکھا ہے۔
داعش نے اپنے زیر انتظام میڈیکل کالج میں مروجہ عالمی نصاب تعلیم کو پڑھانا تو شروع کیا ہے مگر اس کا دورانیہ چھ سال کے بجائے تین سال کردیا گیا ہے۔ داعش نے 26 اقسام کے طب سے متعلق مضامین کو “وقت کا ضیاع” قرار دے کر ان کے پڑھانے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ طب کے علاوہ شماریات، فزکس، حیاتیات، باٹنی اور انگریزی تعلیم پر بھی پابندی عاید کر دی ہے۔
چونکہ داعش کی جانب سے میڈیکل کی تعلیم کا دورانیہ چھ کے بجائے نصف یعنی تین سال کیا گیا ہے، اس لیے یہ بہت سے ان طلباء کے لیے ایک ایک پرکشش پیکیج ہے کیونکہ اتنے کم وقت میں وہ طب جیسے اہم شعبے کی ڈگری لینے کے اہل ہوں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں بڑی تعداد میں نوجوان اس کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
“داعش” کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ہاں میڈیکل کالج میں طلباء کو علاج معالجے کی وہ بنیادی اورضروری تعلیم دلواتے ہیں جو ان اس پیشے کے لیے ضروری ہے۔ وہ غیر ضروری تعلیم کو اس میں شامل نہیں رکھتے۔ طلباء کو ہنگامی حالت میں زخمیوں کے علاج کا طریقہ سکھایا جاتا ہے اوریہی ان کے لیے کافی ہے۔
داعش کے ترجمان میگزین”دابق” کے مطابق تنظیم میڈیکل کالج میں زیرتعلیم طلباء کو مفت تعلیمی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ تین سال تک طلباء کےطعام، قیام، کتب، مواصلات اور یونیفارم کی فراہمی کے علاوہ انہیں وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ “دابق” کے مطابق حال ہی میں الرقہ شہر کے 300 امیدواروں نے میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دی۔ ان کے ٹیسٹ انٹرویو کیے گئے جن میں سے 100 کو داخلے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔
اپنوں کی گردنیں اڑانے کا چلن
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت “داعش” کے ہاں دو میڈیکل کالج قائم ہیں۔ ایک شام کے شہر الرقہ میں جب کہ دوسرا عراق کے موصل شہرمیں قائم ہے۔ داعش جہاں بیرون ملک سے ماہرین صحت کو اپنے ہاں لانے کے لیے مہمات چلا رہی ہے وہیں تنظیم بعض اوقات اپنے ہاں خدمات انجام دینے والوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
“داعش” کے ہاں “وصل وفراق” کی داستانیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ انہی میں ایک داستان بلال الحمصی نامی ایک نوجوان ڈاکٹر کی بھی ہے جس نے انٹرنیٹ پر ایک غیر ملکی خاتون سے دوستی کی اور داعش نے اس خاتون کو رغلاء کر شام پہنچایا جہاں دونوں کی شادی کرا دی گئی۔
اس کے برعکس کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ داعش اپنے ہی لوگوں کی گردنیں مارنے سے بھی نہیں چوکتی۔ حال ہی میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹر عبداللہ الشلاش نامی ایک طبیب کو زنا کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔
اس سے قبل داعش 27 سالہ دیا الشنتوری نامی ڈاکٹر کو بھی قتل کرچکی ہے۔ الشنتوری کو سنہ 2014ء کو شام کے المیادین شہرسے اس کی چارخواتین ساتھیوں کے ہمراہ اغواء کیا گیا۔ ان پر جاسوسی کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ خواتین کے انجام کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا۔ رواں سال لیبیا میں ‘داعش” نے شمالی کوریا کے ایک 60 سالہ ڈاکٹر کو اس کی اہلیہ سمیت اغواء کیا۔ ابھی تک ان کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا وہ زندہ ہیں یا قتل کر دیے گئے ہیں۔