جمعرات کو کمیٹی کے سامنے وزیرِ خارجہ جان کیری کے ہمراہ وزیرِ خزانہ جیک لیئو اور وزیرِ تونائی ارنیسٹ موئز پیش ہوئے
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور سامنے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مسئلے کے پرامن کا ’واحد قابل عمل راستہ‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو کمیٹی کے سامنے وزیرِ خارجہ جان کیری کے ہمراہ وزیرِ خزانہ جیک لیئو اور وزیرِ تونائی ارنیسٹ موئز پیش ہوئے۔ جان کیری نے کمیٹی کو بتایا؛ ‘ہمیں (ایران کو) جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنا تھا اور ہم نے یہ حاصل کر لیا ہے۔‘
امریکی کانگریس کے پاس اس معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے دو ماہ کی مدت ہے۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں رپبلکن پارٹی اکثریت میں ہے اور رپبلکن اراکین اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ ہفتوں میں کانگریس کے جائزے کے دوران جان کیری سے اس معاہدے میں موجود شرائط کے بارے میں سخت سوالات کیے جائیں گے۔
دوسری جانب ایرانی صدر بھی جوہری معاہدے کا دفاع کر رہے ہیں۔
صدر حسن روحانی نے ٹی وی براہ راست نشر کیے جانے والے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ معاہدہ ‘تاریخ کا ایک نیا صفحہ‘ ہے اور ایران کے عوام کی خواہش یہی چاہتے تھے۔
ایرانی صدر بھی جوہری معاہدے کا دفاع کر رہے ہیں
جان کیری نے قائمہ کمیٹی کوبتایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات کی میز پر اس واضح مقصد کے ساتھ آئی تھی کہ جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران نے جوہری پروگرام کو مکمل طور ختم کرنے کے اسرار کرنا بے مقصد تھا کیونکہ ایران کے پاس ١٠ سے ١٢ ایٹم بم بنانے کے لیے ٹیکنالوجی اور مواد موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا؛ ‘ہمارے پاس یہی راستہ تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایران کا جوہری پروگرام محدود اور مکمل طور پر پرامن ہے یا کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔
ایران اور چھ عالمی قوتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، جین اور جرمنی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا جس کے عوض اس کے خلاف پابندیوں میں بھی کمی کی جائے گی۔
عالمی طاقتوں کا یہ خدشہ تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے جبکہ تہران کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد اور توانائی کے حصول کے لیے ہے۔
جب تک کانگریس اس معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے تب تک ایران پر سے پابندیاں ہٹائی نہیں جا سکتیں اور ایران پر جلد جلد پابندیاں بھی 17 ستمبر تک ہی ہٹائی جا سکتی ہیں۔