مارچ 2011 میں شروع ہونے والی ملک میں سورش کے باعث اب تک 80000 فوجی اور حکومت حامی جنگجو مارے جا چکے ہیں
شام کے صدر بشار الاسد نے تسلیم کیا ہے کہ باغیوں کے خلاف لڑائی میں ملک کے بیشترً علاقوں پر اپنا کنٹرول میں برقرار رکھنے کے لیے بعض علاقوں میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اتوار کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں صدر بشار الاسد دارالحکومت دمشق میں اکابریں سے خطاب کر رہے تھے۔
شام میں فوج سے بھاگنے والوں کے لیے عام معافی
شام میں 2011 سے جاری لڑائی میں بشار الاسد نے کچھ علاقوں میں اپنی شکست کو تسلیم کیا ہے۔ خطاب میں صدر اسد نے کہا کہ ملک کی فوج میں سپاہیوں کی کمی ہے۔
اس سے قبل انھوں نے فوجی سروس سے دور رہنے یا فوج چھوڑ کر بھاگنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک دو لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں اب بھی حکومتی رٹ قائم نہیں ہو سکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کی قدرے مضبوط کہلائی جانی والی افواج کی تعداد تین لاکھ تھی لیکن لڑائی میں ہلاکتوں اور فوجی چھوڑ کر بھاگنے والوں کی وجہ سے فوجیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔
شام کے صدر نے کہا کہ فوج کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں ہے کہ وہ پورے ملک کا دفاع کر سکے۔ انھوں نے سعودی عرب، ترکی اور قطر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں سرگرم عمل باغی گروہوں کے لیے بیرونی امداد بڑھ رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’بعض مخصوص حالات میں ہم علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ فوجوں کو اُن علاقوں میں روانہ کر سکیں جو ہمارے کنٹرول میں ہیں۔‘
’ہمیں یہ واضح کرنا پڑتا ہے کہ اہم علاقے کون سے ہیں جہاں فوج موجود ہوں تاکہ باقی تمام علاقے بھی ہاتھ سے نکل نہ جائیں۔‘
صدر اسد نے اپنے خطاب میں جنگ لڑنے کا عزم جاری رکھنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کو خارج از امکان قرار دیا ہے
پڑوسی ملک لبنان میں بی بی سی کے نامہ نگار جم میور کا کہنا ہے کہ حالیہ کچھ ماہ کے دوران شام کی افواج مخصوص علاقوں کے دفاع میں مصروف ہیں اور وہ اُن علاقوں کا رخ نہیں کر رہے ہیں جہاں فوج کو زیادہ مذاحمت کا سامنا ہے۔
رواں سال شام کے شمال مغربی صوبے ایدلیب اور پیلمائرہ میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبضہ کیا ہے۔ صدر بشار الاسد نے کہا انھیں یقین ہے کہ فوج اہم علاقوں اور اہم شہروں کا دفاع ضرور کرے گی جیسے دمشق، حمص اور ساحلی علاقے۔
صدر اسد نے اپنے خطاب میں جنگ لڑنے کا عزم جاری رکھنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ’ شامی افواج کی لغت میں ’شکست‘ کا لفظ موجود نہیں ہے اور ہمت ہار جان ہمار شیوا نہیں ہے۔‘
ملک میں باغیوں اور جہادیوں سے لڑنے میں مصروف شامی فوج نے افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جولائی سے فوج میں بھرتیوں کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی پامالی پر نظر رکھنے والی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں 70000 افراد لازمی فوجی سروس سے دور رہے ہیں۔
مارچ 2011 میں شروع ہونے والی ملک میں سورش کے باعث اب تک 80000 فوجی اور حکومت حامی جنگجو مارے جا چکے ہیں۔