محمد فیصل ابن محمد افضل:::
اُردو ، جیسا کہ آج عام طور پر لوگ سمجھتے ہےں ، صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ یہ عام ہندوستان کی زبان ہے۔ یہ زبان لشکری زبان سے نکلی ہے۔’ اُردو ‘ لفظ ترکی زبان کے لفظ ”اور دو‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہےں ، گروہ اور فوج۔ یہ زبان مغل بادشاہ نے شاہ جہاں، کے دور حکومت میں پروان چڑھی جس میں ہندوستان کی عام بول چال والی زبانیں اور فارسی کے الفاظ بھی آمیزش ہےں۔
ایک وقت تھا جب ہندوستان میں ہر شہری کی اور دیہاتی کی حتیٰ کہ سرکاری زبان کے نام سے جانے جاتی تھی یہ اُردو۔ ہندوستان کی آزادی میں بھی اُردو زبان کو مرکزی کردار حاصل رہا ہے۔
مغربی بنگال کے فارسی اخبارات ’اُردو پریس‘ کے موجد ہےں۔ جب فارسی اپنی خستہ حالی کو پہنچ گئی تو اسی اُردو زبان کو عروج حاصل ہوا۔
ہندوستان کی آزادی کی تاریخ بنا اُردو پریس کے کردار کی، اُردو شاعروں کی اور اُردو صحافیوں کی قدردانی اور شمولیت کا اظہار و اعتراف کےے مکمل ہی نہیں ہوسکتی ۔
بدقسمتی سے آج سوائے اسکول ، کالجوں، ریسرچ اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اُردو زبان کی اہلیت اور ضرورت کو نہ ہی سراہا جاتا ہے اور نہ ہی کہیں اس کے ذکر سنائی دیتے ہےں۔ آج اُردو کو صرف شاعری اور رومانس ہی زبان سمجھا جانے لگا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں کے علاوہ اور اس کے بعد اُردو کے چمکتے چہرہ، اُس کے آزادی کے رول کو، اُردو صحافت اور شاعروں کو ہم بھولتے ہی جارہے ہےں۔ آج نہ کہیں اس کا تذکرہ ہے اور نہ ہی کہیں اس کے بارے میں لکھا ہوا ہی ملتا ہے۔
اُردو کا سب سے پہلا اخبار ہندوستان کے کلکتہ شہر سے شائع ہوا جس کو شائع کرنے والے ایک بنگالی ہفت روزہ اخبار ’سمبد کومدی‘ کے بانی ’ہری ہردتا‘ تھے۔ یہ اخبار جو 1822ئ میں شائع ہوا اس کے مدیر سدا سُکھ لال تھے۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ تیسرا ہندوستانی اخبار تھا۔ یہ اخبار 1888ئ تک شائع ہوا۔
ہندوستانی کی پہلی جنگ آزادی کے وقت دیس بھر میں کئی اخبار شائع ہوتے تھے اور اپنا خاطر خواہ اثر رکھتے تھے۔ جیسے کہ بنگدوت (راجا رام موہن رائے) ، دادا بھائی نوروجی کا ’راست گفتار‘ اور ’گیا نینسن‘ جنہوں نے کافی حد تک آزادی کی لہر دوڑا ئی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اُردو کے صرف تین ہی اخبار تھے جو روزانہ شائع ہوتے تھے۔ ’پیسہ ،اودھ اور صلح کُل‘ سیاسی طور سے یہ سارے ’اعتدال پسند گروہ‘ کی طرف سے چلائے جارہے تھے، بہرحال پھر کچھ ایسے اخبارات بھی نکلے جنہوں نے ایک نئے ولولے اور جوش سے آزادی کی روح پھونکی، جیسے زمین دار، ہندوستانی، الہلال اور ہمدرد وغیرہ۔
لاہور کا ’ہندوستان‘، امرتسر کا ’دیپک‘ ، لاہور کا ’دیش‘، کانپور کا ’اُردوئی محلہ‘، لکھنو¿ کا ’مسلم گزیٹ‘، بجنور کا ’مدینہ‘، لکھنو¿ کا ’ہمدم‘ اور الہ آباد کا ’سوراج‘ وغیرہ اخبارات نے جہاں مو¿ثر انداز میں سیاسی بیداری کو فروغ دیا وہیں ساتھ ساتھ آزادی کی تڑپ کی بھی کو روشن کی تو وہیں غالب ، میر، ذوق اور دیگر اُردو شاعروں کے مداح کثرت سے پائے جاتے تھے۔ کہنے والے کہتے ہےں کہ آج بھی ان مداحان کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ مگر شاعری کے علاوہ اُردو دانوں کی شجاعت ، شہادت اور قربانی کو بڑی مشکل سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے مولوی محمد باقر شہید، منیر شکوہ ہندی، منشی سجاد حسین، بِرج نارائن چکبست وغیرہ۔
آج کچھ شخصیتوں صرف ان کی سیاست کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جب کہ اُن قلم کے انداز، اس کی کاٹ اور قلمی طاقت و شجاعت والے پہلو نظر ہی نہیں ڈالی جاتی۔ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہرؒ وغیرہ۔ جب کہ بات دراصل یہ ہے کہ وہ قلم ہی طاقت تھی جس کی بدولت یہ لوگ عوام کے دلوں میں حاکم بن گئے تھے جس کی وجہ سے سیاسی میدان میں اترنا پڑا۔
دیگر نام جو ذہن میں گونجتا رہتا ہے وہ ہے عبدالقیوم انصاری، جو ہفت روزہ ’الاصلاح‘ کے مدیر تھے اور ایک اُردو ماہواری ’مسوات‘ بھی شائع کرتے تھے۔ انہوں نے ایک تحریک ’مومن‘ بھی چلائی جو کہ پچھڑے ہوئے مسلمانوں کی بہبود کے لےے کوشاں رہتی تھی۔ وہ بٹوارے کے سخت خلاف تھے۔
اُردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر نے دہلی کے لوگوں کو آزادی کی دھارا میں لانے اور باخبر رکھنے کے لےے اخبار نکالا۔ وہ غالب کے ہم عصر تھے۔ ان کا اخبار سرے سے تو انگریزی مخالفت میں نہ تھا مگر مخالفت سے خالی بھی نہ تھا۔ وہ اخبار نکالتے رہے اور انگریز ان کے دشمن بن گئے۔ مولوی باقر کو گولی مار کر قتل کردیاگیا۔
’صادق الاخبار‘ کے مدیر جمال الدین کو تین سال قید کی سزا دی گئی۔ منیر شکوہ بندی فروخ آباد کے شاعر تھے ان کو انگریزوں سے بغاوت کی پاداش میں کافی اذیتیں دینے کے بعد انڈمان بھیج دیا گیا۔ اخبار ’گلشن نو بہار‘ کو ہرجانے کی سزا ہوئی جس کی بھاری قیمت وصولی گئی۔ یہ سارے اقدام انگریزوں ن اُردو زبان کو اور ایسے اُردو اخبارات کی اُس آواز کو دبانے کے لےے کیے گئے جو پورے ہندوستان میں انگریز بغاوت کے علم بردار ثابت ہورہے تھے۔
اُردو زبان اور اُردو صحافت کی آزادی چھین لی گئی، انگریز حکومت ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی تو کافی اخبارات نے اپنی جگہ تبدیل کرلی اور کافی نئے اخبارات ملک سے باہر نکالے گئے۔ آزادی کے متوالوں نے ملک اور حکومت کی پہنچ سے باہر ہوکر ملک کے لےے جو اخبارات نکالے۔ ان میں قابل ذکر لندن کا ’آئینہ سوداگری‘ 1887، ’ترجمان شوق‘ کانسٹن ٹینویول، ’ترکستان کا سلطان الاخبار‘ لندن کا ہندوستان، ’تانشکنٹ کا حریت‘ بران کا ’تلوار‘ ، سن فرنسِکو کا’ ہندوستانی ‘ اور نیویارک کا ’یادِ وطن‘ وغیرہ ہےں۔
مُنشی سجاد حسین کی اِدارت میں 1877ئ میں اودھ پنچ شائع ہوا جس کا ایک الگ مضحکہ خیز انداز تھا۔ منشی جی اس میں انگریز حکومت کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتے اور اُن کی کارستانیوں سے عوام کو آگاہ کرتے تھے۔ یہ اخبار ہندوستان کانگریس کے زیراثر رہا اور اپنے مزاحےہ انداز سے کافی مقبول رہا۔ اس نے ہندو مسلمان بھائی چارہ پر زور دیا۔
ہندو شاعر چکبست جنہوں نے اُرو زبان کو اختیار کیا۔ انہوں نے اُردو زبان میں شاعر کی وہ پیشے سے وکیل تھے۔ اُن کی تصوراتی شاعری لارڈ کرزن سے ایک جھپٹ اس وقت کی ایک قابل داد نظم تھی۔ ’لارڈ کرزن سے ایک جھپٹ‘ ایک جرا¿تمند ہندوستانی جرا¿تمندانہ کاوش تھی۔
اور ان سب کے بعد آیا ممبئی کا وہ اخبار جو آج بھی جاری و ساری ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جناب عبدالحمید انصاری کے ذریعے جاری کیا ہوا اخبار ’انقلاب‘ جو روزانہ شائع ہوتا ہے یہ اخبار 1938ئ میں شروع ہوا۔ محمد علی جناح نے عبدالحمید صاحب کو پاکستان آنے کی دعوت دی پر وہ نہ گئے اور ممبئی ہی میں رہے۔
یہ ابھی کچھ ہی صحافی اور اخبارات تھے، ان جیسے ہزاروں اور بھی ہےں اس شکل وقت میں جب زبان مر رہی ہے، اُردو کی بے لوث خدمت کی جائے اور پہلے کے لوگوں سے ہمت و استدلال سیکھا جائے تو آج بھی سے اُردو ایک مقبول مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ جس طرح یہ زبان آزادی سے پہلے مرکزی تھی مسلسل کاوش و کوشش سے آج بھی ہوسکتی ہے۔ (یو این این)
محمد فیصل ا
سوناپور۔ بھانڈوپ (ویسٹ)۔ممبئی 400078
موبائل: 9773497459