مہندرا راجہ پکشے کو ملک کی سنہالہ زبان بولنے والی بودھ آبادی میں بہت مقبولیت حاصل ہے
سری لنکا میں عوام پیر کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ملک کی نئی پارلیمان کا انتخاب کر رہے ہیں۔
ملک کے سابق صدر مہندرا راجہ پکشے ان انتخابات میں فتح اور ملک کا وزیرِ اعظم بننے کا خواب لیے میدان میں اترے ہیں۔
وہ رواں برس جنوری میں دس برس تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد صدارتی انتخاب میں وزیرِ صحت میتھرئی پالا سریسینا سے شکست کھا گئے تھے۔
اب مہندرا راجہ پکشے کی خواہش ہے کہ سری لنکا فریڈم پارٹی انتخابات جیتنے کی صورت میں ان کی قیادت میں حکومت بنائے جبکہ جماعت کے موجودہ قائد اور ملک کے صدر سریسینا کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کسی قدم کی اجازت نہیں دیں گے۔
ملک میں انتخابی مہم تقریباً پرسکون ہی رہی اور تشدد کے واقعات میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
سری لنکا میں کل ڈیڑھ کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں اور انتخابی نتائج منگل تک آنے کی امید ہے۔
69 سالہ مہندرا راجہ پکشے کو ملک میں 26 سال سے جاری تمل بغاوت کو فرو کرنے کی وجہ سے ملک کی سنہالہ زبان بولنے والی بودھ آبادی میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔
الیکشن کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں
تاہم ان کے مخالفین ان پر ایک بدعنوان، ظالم اور مطلق العنان حکومت چلانے کا الزام لگاتے ہیں جس سے وہ انکار کرتے آئے ہیں۔
حالیہ انتخابی مہم میں سامنے آنے والے ایک خط میں سریسینا نے مہندرا راجہ پکشے پر سیاسی جماعت کو یرغمال بنا لینے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ انھیں وزراتِ اعظمیٰ کے لیے نامزد کریں۔
جمعے کی شب انتخابی مہم کے اختتام سے قبل اپنے آخری خطاب میں موجودہ وزیرِ اعظم رانیل وکرماسنگھے نے بھی کہا تھا کہ ’ہم متحد ہیں کہ راجہ پکشے کے خلاف ووٹ دیں گے اور انھیں ریٹائر کر دیں گے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’انھیں اگر اب تک ہمارا پیغام سمجھ نہیں آیا تو ہمیں ملک کر یقینی بنانا ہے کہ اب وہ اسے سمجھ لیں۔‘
سری لنکا میں حالیہ انتخابی مہم ماضی کے مقابلے میں خاصی پرامن رہی ہے جب اکثریتی سنہالہ اور اقلیتی تمل آبادی میں جھڑپوں میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا رہا ہے۔
سری لنکا میں جاری خانہ جنگی 2009 میں ختم ہوئی لیکن اب بھی فریقین ایک دوسرے پر تشدد کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔