’دیکھ مگر پیار سے‘ تمام تر توقعات کے برعکس ایک کمزور فلم ثابت ہوئی
’دیکھ مگر پیار سے‘ ایک ایسے رکشہ ڈرائیور سکندر بادشاہ خان (سکندر رضوی) کی کہانی ہے جس کی زندگی میں آنے والی ایک لڑکی عینی (حمائمہ ملک) اس کی زندگی بدل دیتی ہے۔
عینی ایک نوسرباز ہے جو لوگوں کو بےوقوف بنا کر ان سے رقم لوٹ لیتی ہے اور یہ سکندر کو بھی اپنے ساتھ ملا کر فراڈ کے بڑے منصوبےشروع کر دیتی ہے۔
ڈائریکٹر اسد الحق کی پہلی فلم جو انہوں نے 45 دن کی قلیل مدت میں مکمل کی اپنی بہترین سینیماٹوگرافی اور اچھی موسیقی کی بدولت تعریف کے قابل کہلاتی مگر کمزور کہانی اور بےجان مکالموں نے اسے بےرنگ کر دیا۔
اس فلم کا آغاز رکشے میں ایک سین سے ہوا جب رکشہ خراب ہوجاتا ہے اور فلم کا ہیرو سکندر رضوی اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کہانی یہاں سے پیچھے جاتی ہے اور پھر واپس اسی سین پر آتی ہے۔
سکندر رضوی کا کردار ایک رکشے والے کا ہے جو اکثر خواب دیکھتا رہتاہے اور اس کے خواب اور حقیقی دنیا کے درمیان کہانی اکثر گڈمڈ ہو جاتی ہے۔
یہ میڈم نور جہاں کے پوتے سکندر رضوی کی بھی پہلی فلم تھی اور پہلی فلم کے لحاظ سے انھوں کا کام بُرا نہیں اوران میں ایک چاکلیٹی ہیرو بننےکی صلاحیت نظر آئی۔
حمائمہ ملک نے ایک چالباز لڑکی کا کردار ادا کیا جس میں کچھ مبصرین کے مطابق وہ اکثر ’جب وی میٹ‘ کی کرینہ کپور کی نقل کرتی محسوس ہوئیں۔
تاہم اگر عینی کے کردار کی نوعیت کو دیکھا جائے تو یہ ایک نوسرباز لڑکی ہے جو مستقل ایک لڑکے کو اپنے دام میں پھنسا کراس سے اپنی مرضی کے کام کرواتی رہتی ہے اس لیے حمائمہ کے بقول انہوں نے جانتے بوجھتے کردار کےمطابق اوور ایکٹنگ کی ہے۔
اس کی تصدیق ایک سین میں ہو جاتی ہے جب وہ روتے ہوئے سکندر سے اس کے سلوک کی شکایت کرتی ہیں۔ اگر حمائمہ کی بات مان لی جائے تو ان کی اداکاری قابلِ تعریف کہلائے گی۔
آمنہ الیاس کا آئٹم نمبر ’کالا ڈوریا‘جس کا بہت چرچا تھا صرف چند ثانیوں کے لیے نظر آیا اور اس کا اختتام اتنا اچانک ہوا کہ تشنگی رہ گئی۔
سکندر رضوی کی یہ پہلی فلم تھی اور پہلی فلم کے لحاظ سے ان کا کام بُرا نہیں اور ان میں ایک چاکلیٹی ہیرو بننےکی صلاحیت نظر آئی
فلم کی عکس بندی میں بار بار کلوز اپ شاٹس لیے گئے ہیں جس سے سیٹ کی خوبصورتی متاثر ہوئی ہے۔
فلم میں سینیئر اداکار عرفان کھوسٹ نے بھی مختصر کردار ادا کیا ہے مگر وہ کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔
لاہور میں فلمائی جانے والی اس فلم میں لاہور کو ایک سنسان شہر دکھایا جانا حیرت کا سبب بنا مگر اس کی عکاسی خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔
فلم میں اکثر سین سے پہلے یک سطری جملہ یا مصرعہ لکھا ہوا آتا جو فلم کے نام کی طرح رکشوں کے پیچھے لکھے جملوں میں سے ہوتا جیسے ’فاصلہ رکھیں، کہیں پیار نہ ہوجائے‘ ، ’پپو یار تنگ نہ کر‘ ، ’ہنسی تو پھنسی‘ اور ’محبت اندھی ہوتی ہے‘۔
ان جملوں سے اگلے سین کا منظر بتانے کی کوشش کی گئی مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے لیے اردو رومن سکرپٹ میں لکھنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ رکشوں پر رومن اردو تو نہیں لکھی ہوتی!
فلم میں رنگوں کا اچھا استعمال کیاہے مگر بیشتر پاکستانی فلموں کی طرح اس فلم میں بھی سپانسرز یعنی سپرائٹ کی بوتل اور اشتہار جا بجا استعمال کیےگئے اور شاید اسی مناسبت سے پوری فلم میں جگہ جگہ ہرے رنگ کی ٹیوب لائٹس نظر آئیں۔
حمائمہ ملک نے عینی کا کردار نبھایا ہے جو ایک نوسرباز ہے جو لوگوں کو بےوقوف بنا کر ان سے رقم لوٹ لیتی ہے
ایک سین میں حمائمہ ملک سکندر سے پوچھ کر میکڈونلڈز کو فون پر آرڈر دیتی ہیں اور پورا مینیو ہی بتایا جاتا ہے۔ دنیا بھرمیں فلموں میں برانڈنگ کی جاتی ہے مگرپاکستان میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اشتہارات کے لیے ہی فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔
آسان الفاظ میں فلم کی کہانی ایک مکمل فارمولے کا نتیجہ تھی۔ اسدالحق کے مطابق انہیں نے کچھ مختلف کرنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب رہے تاہم انہوں نے اس فلم کی لاگت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
’دیکھ مگر پیار سے‘ تمام تر توقعات کے برعکس ایک کمزور فلم ثابت ہوئی جس کی کہانی بہت کمزور اور بےربط تھی جبکہ فلم میں رومانس بھی خال خال ہی نظر آیا حالانکہ اس فلم کی تشہیر رومینٹک کامیڈی کہہ کر کی گئی تھی۔
اب اگر پیار نظر ہی نہ آئے تو پیار سے کیسے دیکھیں؟