یوم پیدائش خصوصی پیشکش
ممبئی : مشاعروں اور محفلوں سے ملنے والی شہرت اور کامیابی نے کبھی موٹر میکنک کا کام کرنے والے گلزار کو گزشتہ چار دہائیوں میں فلمی دنیا کا ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار بنادیا ہے ۔پنجاب (اب پاکستان) کے جہلم ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے دینا میں کالرا اروڑہ سکھ خاندان میں 18 اگست 1934 کو پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا (گلزار) کو اسکول کے دنوں سے ہی شعر و شاعری اور نغمہ نگاری کا شوق تھا۔ کالج کے دنوں میں ہی ان کا یہ شوق پروان چڑھنے لگا اور وہ اکثر وبیشتر مشہور ستار نواز روی شنکر اور سرود نواز علی اکبر خان کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتے تھے ۔تقسیم ہند کے بعد گلزار کا کنبہ امرتسر میں بس گیا لیکن گلزار نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ممبئی کا رخ کیا اور ورلی میں ایک گیراج میں وہ کار مکینک کا کام کرنے لگے ۔ فرصت کے اوقات میں وہ شاعری لکھا کرتے تھے ۔ اسی دوران وہ فلم سے وابستہ لوگوں کے رابطے میں آئے اور فلم ڈائریکٹر بمل رائے کے معاون بن گئے ۔ بعد میں انہوں نے ڈائریکٹر رشی کیش مکھرجی اور ہیمنت کمار کے معاون کے طور پر بھی کام کیا۔اس کے بعد گلزار شاعر کی حیثیت سے پروگریسیو رائٹرس ایسوسی ایشن بی ڈبلیو اے سے وابستہ ہوگئے ۔ انہوں نے 1961 میں ومل رائے کے معاون کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ گلزار نے راکیش مکھرجی اور ہیمنت کمار کے معاون کے طور پر بھی کام کیا۔گلزار نے نغمہ نگار کی حیٖثیت سے اپنا پہلا گانا ‘‘ میرا گورا رنگ لے ری لے ’’ 1963 میں ومل رائے کی فلم بندنی کے لئے لکھا ۔ گلزار نے سال 1971 میں فلم ‘‘میرے اپنے ’’ کے ذریعے ہدایت کاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد گلزار نے ‘‘کوشش’’ ، ‘‘پریچئے ’’ ، ‘‘اچانک’’ ، خوشبو’’، ‘‘آندھی’’، موسم’’، ‘‘کنارہ’’، ‘‘کتاب’’، ‘‘نمکین’’، ‘‘انگور ’’ اجازت ’’، ‘‘لباس’’، ‘‘لیکن’’، ‘‘ماچس’’، اور ‘‘تو تو تو’’جیسی کئی فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔ابتدائی دنوں میں گلزار کا جھکاؤ کمیونسٹ نظریات کی طرف تھا، جو ‘‘میرے اپنے ’’ اور ‘‘آندھی’’ جیسی ان کی ابتدائی فلموں میں نظر آتا ہے ۔ فلم آندھی میں ہندستانی سیاسی نظام کو بالواسطہ طو رپر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔شاید اس وجہ سے اس فلم پر کچھ عرصہ کے لئے پابندی لگادی گئی تھی۔گلزار ادبی کہانیوں اور نظریات کو فلموںمیں ڈھالنے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان کی فلم انگور شیکسپیئر کی کہانی کامیڈی آف ریررس ، موسم، اے جے کروئنس کے جڈاس ٹری، اور پریچئے بالی ووڈ کی کلاسیکی فلم دی ساونڈ آف میوزک پر مبنی تھی۔راہل دیوبرمن کے میوزک ڈائریکشن میں نغمہ نگار کے طور پر گلزار کے فن میں نکھا ر آیا اور انہوں نے ناظرین اور سامعین کو ‘مسافر ہوں یارو ’، ‘پریچئے ’ ‘تیر ے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں’، ‘آندھی’، ‘گھر جائے گی، خوشیو’ ، ‘میرا کچھ سامان’،‘اجازت ’،‘ تجھ سے ناراض نہیں زندگی ‘ معصوم’ جیسے ادبی انداز والے نغمے دیئے ۔ سنجیو کمار، جتیندر اور جیہ بھادری کی اداکاری کو نکھارنے میں گلزار نے اہم رول ادا کیا تھا۔گلزار نے فلموں میں ہدایت کاری کرنے کے علاوہ کئی فلموں میں ڈائیلاگ اور مکالمے بھی لکھے ۔ اس کے علاوہ گلزار نے سال 1977 میں کتاب اور کنارہ فلمیں بھی بنائیں ۔ گلزار کو اپنے نغموں کے لئے اب تک گیارہ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے ۔ گلزار کو تین بار نیشنل ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جاچکا ہے ۔گلزار کے چمکدار کیریئر میں ایک قابل فخر باب اس وقت جڑگیا جب سال 2009 میں فلم ‘‘سلم ڈاگ ملینیئر ’’ میں ان کے نغمے ‘‘جے ہو’’ کو آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہندوستانی سنیما میں ان کی اہم خدمات کو دیکھتے ہوئے سال 2004 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے شہری اعزاز ‘‘پدم بھوشن ’’ سے سرفراز کیا گیا۔اردو زبان میں گلزار کی مختصر کہانی ‘‘سنگرہ’’ ، ‘‘دھواں’’ کو 2002 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے ۔ گلزار نے شاعری کا انداز اپنایا ہے ‘‘جسے ‘‘تروینی’’ کہا جاتا ہے ۔ گلزار کو اس سال فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔