قاہرہ ۔ مصری حکومت نے آئندہ سال کے آغاز میں عبوری آئین پرعوامی ریفرنڈم کی مخالفت کرنے والے جید علماء کرام کو بھی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑنا شروع کر دیا ہے۔
قاہرہ وزارت اوقاف و مذہبی امور کی جانب سے سلفی تحریک سے تعلق رکھنے والے تین سرکردہ علماء کرام کے خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ علماء دستور پر عوامی ریفرنڈم کی مخالفت اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے باعث انہیں بغیر اجازت کے اپنی مساجد میں جمعۃ المبارک کا خطبہ دینے اور تقریر کی اجازت نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ سلفی مسلک کی سیاسی جماعت “النور” کے موقف کے برعکس اسی مسلک کے کئی علماء نے فوج کی نگرانی میں مرتب کردہ دستور کو مسترد کر دیا ہے۔ مخالفت کرنے والے علماء میں ابو اسحاق الحوینی، علامہ الشیخ حسان اور ڈاکٹریعقوب شامل ہیں۔
وزارت مذہبی امور نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ مساجد میں خطبات جمعہ کی اجازت صرف جامعہ الازھر کے فاضل علماء کو دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی متنازعہ عالم دین پیشگی اجازت کے بغیر جمعہ کا خطبہ نہیں دے سکتا۔
خیال رہے کہ سلفی مسلک کے سرکردہ عالم دین علامہ ابو اسحاق الحوینی نے فوج کی نگرانی میں وضع کردہ دستور کی بعض دفعات پر اعتراض کرتے ہوئے ان میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی تاہم ان کی ہم مسلک سیاسی جماعت “النور” نے دستور کو انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور اسلامی تعلیمات کا ضامن قرار دیتے ہوئے اس کی کھل کرحمایت کی ہے۔
سلفی مسلک کے ایک دوسرے عالم دین الشیخ مصطفیٰ العدوی نے بھی عبوری دستور پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر فوج کی نگرانی میں تیارکردہ آئین کو”باطل” قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص طبقے کے اس دستور کو پوری قوم پرمسلط نہیں کیا جا سکتا۔ عوام ریفرنڈم میں اس دستور کومسترد کردیں۔
مصر میں تیار کردہ نئے دستور کی حمایت اورمخالفت میں علماء دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازھر کے فضلاء دستور کی کھلے عام حمایت کر رہے ہیں۔ وہ ہرمسجد اور چوک و چوراہے پر کھڑے ہو شہریوں کو دستور کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب بھی دے رہیں اور مخالف علماء پر تنقید کے تیرو نشتر بھی چلا رہے ہیں۔
جامعہ الازھر کی افتاء کونسل کے سابق صدر الشیخ عبدالحمید الاطرش کا کہنا ہے کہ “دستوری ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بائیکاٹ کرنے والے منفی سوچ رکھتے ہیں اور منفی سوچ کسی سچے مسلمان میں زیب نہیں دیتی “۔