لندن: ماہرین نے انسانی اعضا خصوصاً گردوں کو طویل عرصے تک منجمد کرکے محفوظ کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔
ماہرین نے اسے ایک ’انقلابی عمل‘ قرار دیا ہے جسے ’نارموتھرمک پرفیوڑن ‘ کہا جارہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسے پہلے ہی 40 ٹرانسپلانٹ آ پریشن میں کامیابی سے آ زمایا جاچکا ہے جب کہ برطانیہ کے فری مین اسپتال اور گائز ہاسپٹل لندن نے پورے ملک میں اس نئے طریقے کی آ زمائش کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ صرف برطانیہ میں 7 ہزار مرد، خواتین اور بچے گردے کے منتظر رہتے ہیں جب کہ ہرسال صرف 3 ہزار گردے بطور عطیہ فراہم کرتے ہیں۔
ڈی فروسٹنگ طریقے کے ذریعے گردے درست حالت میں رہتے ہیں اور کامیاب آ پریشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جب کہ خود گردے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتی ہے۔
برطانیہ میں ٹرانسپلانٹ سرجری کے ماہرمائک نکلسن اس طریقے کے روحِ رواں ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ پہلے منتقلی کے لیے عطیہ کیے گئے کئی گردے تمام احتیاط کے باوجود بھی خراب ہوجاتے تھے لیکن اب اس نئی تکنیک کے ذریعے اعضا کو ان کے انتہائی معیار پر رکھا جاسکتا ہے اور اس طرح پیوندکاری کے لیے گردوں کی بڑی تعداد دستیاب ہوگی کیونکہ جسم سے باہر بھی ۲۰گھنٹے تک گردے کو قابلِ استعمال رکھا جاسکتا ہے۔
برطانیہ میں گردوں پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر پروفیسر نکلسن کہتے ہیں کہ سرجن کم ملتے جلتے عطیہ کندگان سے گردہ لے لیتے ہیں اور معلوم نہیں ہوپاتا کہ عضو کام کرے گا بھی یا نہیں جب کہ نورموتھرمک پرفیوڑن سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ گردہ ٹرانسپلانٹ کے بعد کام بھی کرسکے گا یا نہیں۔
اس تکینک کے پاکستان میں گردے کے ہزاروں مریض بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں کیونکہ یہ مرض پاکستان میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔