گذشتہ دنوں اویسی وزیر اعلی نتیش کمار کے گڑھ میں تھے اور شعلہ بیانی جاری تھی
بھارتی رکن پارلیمان اسد الدين اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد مسلمین آنے والے بہار اسمبلی انتخابات میں 25 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر سکتی ہے۔
بس اب رسمی اعلان باقی ہے۔ 16 اگست کو کشن گنج میں اویسی کی تقریر اس کا واضح اشارہ نظر آيا۔
اگر اویسی لوگوں کے رجحانات جاننے اور پرکھنے گئے تھے تو ان کی اس بات سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہوگی کہ ان کے اجتماع میں زبردست بھیڑ تھی۔
اویسی کی ہمت کی تعریف کرنی ہوگی۔ وہ وزیر اعلی نتیش کمار کے گڑھ میں تھے اور شعلہ بیانی جاری تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کی شدید تنقید کی اور ان پر مسلمانوں کو ’ووٹ بینک‘ کی طرح استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
انھوں نے بہار میں مسلمانوں کی پسماندگی کی ذمہ داری ان دونوں پر ڈالتے ہوئے ان کی پارٹیوں جنتا دل یونائیٹڈ اور راشٹریہ جنتا دل کے اتحاد کو چیلنج کیا۔
اسدالدين اویسی کا یہ انداز گذشتہ سال مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
بہار میں وزیر اعلی نیتیش کمار اور لالو پرساد کی پارٹی مل کر وسیع سیکیولر اتحاد قائم کیا ہے جس میں کانگریس بھی شامل ہے
اس کا انھیں فائدہ بھی ہوا۔ اویسی نے شیو سینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا کے گڑھ ممبئی میں امیدوار کھڑا کرنے کی ہمت کی اور انتخابی جلسوں میں ان دونوں پارٹیوں کی تنقید بھی کی۔
ان انتخابات میں ان کی پارٹی نے 24 امیدوار کھڑے کیے تھے، جن میں سے دو نشستوں پر انھیں کامیابی بھی ملی۔
یہ پہلا موقع تھا جب ان کی پارٹی نے آندھرا پردیش اور تیلنگانہ سے باہر کسی ریاست میں کامیابی حاصل کی تھی۔
اس انتخاب کے بعد انھوں نے بی بی سی اردو کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اب وہ اپنی پارٹی کو قومی سطح کی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے پہلے بہار اور پھر سنہ 2017 میں اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔
ایسے میں بعض سیاسی ماہرین یہ کہنے لگے ہیں کہ ’اویسی فیکٹر‘ نتیش-لالو اتحاد کو بہت حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر مسلمانوں اور پسماندہ طبقے کے ووٹ تقسیم ہوئے تو اس کا فائدہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا۔
اویسی نے اپنی تقریر میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو پر مسلمانوں کو ’ووٹ بینک‘ کی طرح استعمال کرنے کا الزام لگایا
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے طارق انور کہتے ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہار کے انتخابات میں مجلس اتحاد مسلمین کے آنے سے فرق تو پڑے گا ہی۔ جن علاقائی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک سمجھ لیا تھا ان کے لیے اویسی کی پارٹی کا انتخابی سرگرمی میں کودنا یقینا اہمیت کا حامل ہے۔‘
ان کے مطابق، ’یہ بات بھی ضرور ہے کہ اس کا فائدہ فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہی ہوگا۔‘
لیکن کیا اویسی کے لیے نتیش کمار کے گڑھ میں ہلچل مچانا اتنا آسان ہوگا؟
گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کشن گنج، اڑریہ، پورنیہ اور کٹیہار جیسے علاقوں میں نتیش کمار کی پارٹی نے زیادہ تر نشستیں حاصل کی تھیں۔
غلام رسول بلياوي جے ڈی (یو) کے رہنما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی یا اتحاد کو اویسی کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ اویسی کی پارٹی کے انتخابات لڑنے سے کوئی فرق پڑے گا کیونکہ بہار کا سیاسی منظر نامہ بالکل مختلف ہے۔ وہ اچانک انتخابات کے وقت آئے۔ بہار میں انھیں پہلے سے ہی کام کرنا چاہیے تھا۔‘
چراغ پاسوان اپنے والد رام ولاس پاسوان کے ساتھ
بالياوي مزید کہتے ہیں: ’اب ریلیوں میں بھیڑ کا مطلب یہ نہیں ہے بھیڑ ووٹ میں بھی تبدیل ہو جائے۔ جو سیکیولر طاقتوں کا تازہ سیاسی اتحاد بنا ہے وہ اقلیتوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔‘
این ڈی اے اتحاد میں شامل بہار کی لوک جن شکتی پارٹی کے ایم پی چراغ پاسوان کے مطابق: ’اویسی کی سیاست انھیں پسند نہیں کیونکہ وہ فرقہ پرست سیاست کرتے ہیں جس سے انھیں بہار میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
بہار اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے اتحاد اور جنتا دل یونائیٹڈ-راشٹریہ جنتا دل اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اویسی کے میدان میں کودنے سے مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو مقابلے کا فیصلہ این ڈی اے اتحاد کے حق میں جا سکتا ہے۔