یمن جنگ میں اب تک 4300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں گذشتہ کئی ماہ سے جاری لڑائی ملک کو قحط سالی یا خوارک کی قلت کی جانب دھکیل رہی ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک کے سربراہ اریتھرن کزن نے کہا ہے کہ ملک کے بازاروں میں آبادی کی ضرورت پورا کرنے کے لیےخوراک ناکافی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے امدادی اداروں کو مختلف علاقوں میں رسائی نہیں مل رہی ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے اندازے کے مطابق ایک کروڑ تقریباً ایک کروڑ30 لاکھ افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔
یمن میں حوثی باغیوں اور سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت کی اتحادی افواج کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کی سربراہ مس کزن نے یمن کے تین روزہ دورے کے بعد قاہرہ میں بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اہم بندرگاہوں کے اردگرد جنگ کے باعث امداد کی ترسیل رک گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن کو ’مکمل طوفان‘ کا سامنا ہے کیوں وہ لوگ جنھیں امداد کی ضرورت ہے ان تک امداد پہنچ نہیں پارہی اور وہاں کام کرنے والی امدادی ٹیموں کو عطیات دینے والوں کی جانب سے زیادہ رقم وصول نہیں ہورہی۔
اقوامِ متحدہ کے فلاحی امور کے سربراہ سٹیفن اوبرائن نے کہا ہے کہ یمن میں امدادی سامان کی رسد کے لیے موجود اہم بندرگاہ پرسعودی عرب کی ببمباری کی وجہ سے
ہونے والے نقصانات سے وہاں موجود انسانی بحران میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونیسیف کا انتباہ
اقوامِ متحدہ کی بچوں کی تنظیم یونیسیف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق یمن میں جاری مسلح تصادم میں پانچ ماہ کے دوران 400 بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف مسلح تنظیموں کی جانب سےتقریباً اتنی ہی تعداد میں بچوں کو بھرتی بھی کیا گیا ہے۔
یمن کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پانچ لاکھ کے قریب حاملہ خواتین کی طبی سہولیات تک رسائی نہیں ہے، جس کے باعث دورانِ زچگی اور حمل میں پیچیدگیوں کے دوران انھیں شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سٹیفن اوبرائن نے بدھ کو سلامتی کونسل کو دی جانے والی بریفنگ میں بتایا کہ انھیں حدیدہ نامی بندگاہ پر ہونے والے نقصانات پر شدید تحفظات ہیں اور وہاں ہونے والے نقصانات کا پورے ملک پر اثر پر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے یمن میں موجود متاثرین کو خوراک، پانی اور ادویات تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔
سٹیفن اوبرائن نےجنگ میں شامل فریقین کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ آبادی تک امداد کی رسائی کو یقینی بنائیں اور انھیں بین القوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔
منگل کو ہونے والے اس فضائی حملے کے وقت اقوامِ متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا امدادی جہاز بھی بندرگاہ پر موجود تھا۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے پانچ ماہ قبل یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس جنگ میں اب تک 4300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
پانچ ماہ کے دوران یمن میں 400 بچے ہلاک ہوچکے ہیں
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یمن میں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ وہاں موجود شیعہ حوثی باغیوں نے کئی روز کی پسپائی کے بعد مسلسل دوسرے روز حکومت کی حامی فوجوں پر حملہ کیا ہے۔
باغیوں کی مخالف فوج کے ترجمان قائد نصیر کے مطابق حوثی باغیوں کی جانب سے لمبوزا نامی فوجی اڈے پر حملے کے نتیجے میں حکومت کے حامی پانچ جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایک عینی شاہد جو کہ ایک سکیورٹی اہلکار بھی ہیں کا کہنا ہے کہ باغیوں کی مخالف فوج باغیوں اور ان کے حامیوں کو عقبہ تھرا نامی علاقے سے باہر نکالنے میں ناکام رہیں۔
ادھر حوثی باغیوں نے سعودی بمباری کے نتیجے میں اپنے 20 اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
منگل کی شب صنعا کے شمال میں عمران کے علاقے میں فضائی بمباری کے نتیجے میں 13 اساتذہ اور چار بچے ہلاک ہوئے تھے۔