2011 میں ایرانی مظاہرین نے برطانوی سفارتخانے ہر حملہ کیا تھا
چار سال بعد برطانیہ ایران میں رواں ہفتے اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول رہا ہے۔
ایران جانے والوں کے لیے سفری ہدایات میں نرمی
خیال رہے کہ سنہ 2011 میں ایران پر برطانیہ کی جانب سے پابندیاں لگائے جانے کی وجہ سے برطانوی سفارت خانے پر مظاہرین نے حملہ کردیا تھا۔ جس کے بعد سفارتخانے کو بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم برطانوی حکومت نے گذشتہ برس یہ اشارہ دیا تھا کہ اس کا منصوبہ ہے کہ تہران میں برطانوی سفارت خانہ پھر سے کھول دیا جائے۔
سینئر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے خارجہ سیکریٹری فلپ ہیمنڈ رواں ہفتے کے اختتام پر تاجروں کے رہنماؤوں کے ہمراہ ایران جائیں گے۔
چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ تہران کے معاہدے کے چند ہفتوں بعد برطانوی وفد ایران پہنچ رہا ہے۔
ویزا سروس
برطانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق برطانیہ ویزا ریگولیشن کے امور کے حوالے سے بھی تہران سے یقین دہانی چاہتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ویزا سروس ایرانی قانون کے تحت ہو گی اور ضروری ہے کہ یہ امگریشن سے متعلق برطانیہ کے مقاصد کو بھی پورا کرے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ جب چار سال قبل تہران میں برطانوی اور لندن میں ایرانی سفارتخانہ بند ہو گیا تھا تو اس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات اانتہائی کم ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ تعلقات میں آہستہ آہستہ گرم جوشی آئی تاہم گذشتہ ماہ ایران اور عالمی طاقتوں میں جوہری پروگرام سے متعلق معاہدہ تہران میں برطانوی سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔
اس ڈیل کے بعد بہت سے یورپی ممالک نے اپنے معاشی گروہ ایران بھجوائے ہیں۔
ایران اور چھ عالمی قوتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرے گا بدلے میں اس کے خلاف پابندیوں میں بھی کمی کی جائے گی
25 جولائی کو برطانیہ کے دفترِ خارجہ نے ایران جانے والے برطانوی شہریوں کے لیے سفری ہدایات میں نرمی بھی کر دی تھی۔ تاہم یہ کہا تھا کہ وہ ایران میں ہوں تو بھی عراق، پاکستان اور افغانستان سے ملحق سرحد سے دور رہیں۔
اس سے قبل ایران کے سفر سے متعلق یہ ہدایت تھی کہ اگر برطانوی شہریوں کا سفر انتہائی ضروری نہ ہو تو وہ ایران جانے سے گریزکریں۔
سنہ 2013 میں برطانیہ اور ایران نے سفارتی تعلقات کے لیے اپنے اپنے نمائندوں کو مقرر کیا۔ گذشتہ برس جون میں سابق تکنیکی مسائل کے باعث تہران میں برطانوی سفارتخانے کو کھولنے کی تجویز کو موخر کرنا پڑا تھا۔
سفیر کی عدم موجودگی میں ایران کی جانب سے سفارتخانے میں ضروری سامان کی منتقلی کے سلسلے میں درآمدی قانون میں سہولت دینے میں اجتناب کیا گیا۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق برطانیہ ویزا ریگولیشن سے متعلق بھی تہران سے اپنی یقین دہانی چاہتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ویزا سروس ایرانی قانون کے تحت ہو گی اور ضروری ہے کہ یہ امگریشن سے متعلق برطانیہ کے مقاصد کو بھی پورا کرتا ہوں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارتخانے کی جانب سے ویزا سروس دیا جانا بھی سفارتخانے کے عمومی کاموں میں شامل ہوتا ہے تاہم بہت سے ایسے نمایاں مسائل ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے۔