امریکہ میں سائنس دانوں نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کر کے اس سے کاربن نینوفائبرز بنانے کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ نینوفائبرز صنعت کاری میں کام آنے والا بہت کارآمد مواد ہے۔
شمسی توانائی سے چلنے والا یہ نظام پگھلے ہوئےگرم نمک کے ڈرم میں سے بجلی کا ہلکا سا کرنٹ گزارتا ہے۔ اس دوران اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہو جاتی ہے اور ایک الیکٹروڈ پر کاربن نینو فائبرز جمع ہو جاتے ہیں۔
یہ نظام ایک گھنٹے میں دس گرام نینوفائبر پیدا کر رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کو اس حد تک وسیع کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن بعض دوسرے سائنس دان اس سے متفق نہیں۔لیکن پھر بھی یہ رائج طریقوں کی نسبت کاربن نینو فائبرز بنانے کا سستا طریقہ ثابت ہو سکتا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیورٹ لِچ کا کہنا ہے کہ اب تک کئی اپلیکشنز کے لیے کاربن نینو فائبرز بہت مہنگے تھے۔ وہ بوسٹن میں امریکی کیمیکل سوسائٹی کی موسمِ خزاں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
کاربن نینو فائبرز کا استعمال الیکٹر ونکس اور بیٹریوں میں ہوتا ہے اور اگر ان کی قیمت میں کمی آئے تو ان کا استعمال قدرے زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے جہاز اور کاروں میں استعمال ہونے والے مضبوط اور کم وزن والے اجزا کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
کاربن نینو فائبرز کا استعمال الیکٹر ونکس اور بیٹریوں میں ہوتا ہے اور اگر ان کی قیمت میں کمی آئے تو ان کا استعمال قدرے زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے جہاز اور کاروں میں استعمال ہونے والے مضبوط اور کم وزن والے اجزا کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
کاربن نینو فائبرز کا استعمال الیکٹرونکس اور بیٹریوں میں ہوتا ہے اور اگر ان کی قیمت میں کمی آئے تو ان کا استعمال قدرے زیادہ ہو سکتا ہے، جس سے جہاز اور کاروں میں استعمال ہونے والے مضبوط اور کم وزن والے اجزا کو اور بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پروفیسر لِچ اور ان کی ٹیم اس کی قیمت میں کمی لانے میں مدد کر سکتی ہے؟
کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے حاصل کر کے اس سے مفید اشیا بنانے کا خیال خاصا مقبول ہے لیکن اس ضمن میں کامیابی کی کہانیوں سے کہیں زیادہ پورے نہ ہونے والے وعدے ہیں۔ لیکن پروفیسر لِچ کو یقین ہے کہ ان کا ڈیزائن کامیاب ہو سکتا ہے۔
’اسے آسانی سے بڑھایا جا سکتا ہے، اس پورے عمل میں کافی کم توانائی صرف ہوتی ہے۔‘وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نظام سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی لانے کے کافی امکانات ہیں۔
شیفیلڈ یونیورسٹی کی کیمیکل انجینیئر ڈاکٹر کیٹی آرمسٹرانگ کہتی ہیں کہ یہ عمل تجربہ گاہ کی حد تک تو کافی امید افزا اور دلچسپ ہے لیکن پروفیسر لِچ کا بڑا ماڈل مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چونکہ وہ ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرنے کی بات کر رہے ہیں اس لیے اس عمل کے لیے اس گیس کی کافی مقدار چاہیے ہو گی جسے جب بڑے پیمانے پر شروع کیا جائے تو اس پر بہت خرچ آ سکتا ہے۔