سائنسدانوں کے خیال میں اس تازہ تحقیق میں زہریلی گیسوں کے عالمی اخراج کے حوالے سے اہم شواہد موجود ہیں مشرقِ وسطیٰ میں سنہ ۲۰۱۰ سے جاری سیاسی عدم استحکام اور مسلح تصادم کے نتائج غیر متوقع طور پر ان علاقوں کی فضائی آلودگی میں کمی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شام اور عراق جیسے ممالک کی فضائی آلودگی میں ڈرامائی طور پر کمی ہوئی ہے۔شام کے دارالحکومت دمشق میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک، شہر کی فضا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں ۵۰ فیصد تک کمی آئی ہے۔سائنسدانوں کے خیال میں اس تازہ تحقیق میں زہریلی گیسوں کے عالمی اخراج کے حوالے سے اہم شواہد موجود ہیں۔ماہرین سنہ ۲۰۰۴ سے ماحولیاتی آلودگی کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور یہ ناسا کی اورا سیٹیلائٹ پراوزون کی تہہ کا جائزہ لینے والے آلے کی تنصیب کے بعد ہی ممکن ہوسکا ہے۔
اس تازہ ماحولیاتی تحقیق میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران مشرقِ وسطیٰ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں ہونے والی اقتصادی، سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کی فضائی آلودگی پر ہونے والے اثرات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے خلائی جہاز کے ذریعے جمع کی گئی معلومات کا سہارا لیا ہے۔سائنسدانوں کی ٹیم نے ذرائع آمدورفت میں استعمال ہونے والے ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونے والی نائٹروجن پر آکسائیڈ کی سطح کا جائزہ لیا تو پیچیدہ اورغیر متوقع تصویر ابھرکر سامنے آئی ہے۔شام میں جہاں سنہ ۲۰۱۱ سے اب تک لاکھوں افراد لڑائی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں، دمشق اور حلب کے علاقوں کی فضا میں نائٹروجن پر آکسائیڈ کی سطح میں کمی آئی ہے۔
تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے خلائی جہاز کے ذریعے جمع کی گئی معلومات کا سہارا لیا ہے دوسری جانب ہمسایہ ملک لبنان میں مہاجرین کی آمد کی وجہ سے فضائی آلودگی میں ۳۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر متوقع بات تھی کیونکہ لبنان میں جہاں فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا تھا وہیں معشیت تنزّلی کا شکار ہوئی ہے۔تحقیق کے مصنف، میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹریوس لیلیولڈ، نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک خاصی قابل ذکر بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شام سے آنے والے افراد کہاں جا رہے ہیں، آپ شمالی ا±ردن میں ان کے خیموں کی شناخت کر سکتے ہیں اور یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ طرابلس اور بیروت جیسے شہروں میں جا رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’توانائی کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ بڑھتا ہوا ٹریفک اور گاڑیوں کی تعداد ہے‘یونان جیسے ممالک میں عالمی کساد بازاری اور نئے ماحولیاتی قوانین کا اہم کردار رہا ہے۔ ایسا ہی سعودی عرب اور اسرائیل میں بھی ہے۔
اس کے برعکس عراق میں نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے کے بعد فضائی آلودگی میں ہونے والی تبدیلی سے متعلق معلومات میں دیکھی جاسکتے ہیں۔ڈاکٹر لیلیولڈ کہتے ہیں ’ بغداد کے جنوب میں واقع شیعہ اکثریتی علاقے کربلا میں فضائی آلودگی میں اضافہ جاری ہے۔’لیکن اگر آپ بغداد کے شمال مغرب میں دیکھیں جہاں کی کمان خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کے پاس ہے، تو معاملہ یکسر مختلف نظر آئے گا۔ ہر ملک کی اپنی مخصوص کہانی ہے۔‘
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی مختلف سطح، عالمی سطح پر فضائی آلودگی کی لیے ایک اہم سبق ہے۔سنہ ۲۰۰۵ سے سنہ ۲۰۳۰ کے درمیان ہر سال مشرقِ وسطیٰ میں ہونی والی فضائی تبدیلیوں، جیسے نائٹروجن پر آکسائیڈ کی مقدار میں ہونے والے اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’نتائج حقیقت کے خلاف ہیں۔‘
ڈاکٹر لیلیولڈ کہتے ہیں ’ ایسے بہت سے ممالک جن کے بارے میں ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں، ان ممالک میں گیسوں کے اخراج کا منظرنامہ سادہ سے مفروضات پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہاں معاملات کبھی بھی کسی بھی سمت جا سکتے ہیں۔‘’مثال کے طور پر، ایران میں توانائی کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے جبکہ نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کی سطح نیچے آئی ہے۔ فضا میں گیسوں کے اخراج کا کوئی عمومی اصول نھیں ہے۔‘
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی مختلف سطح، عالمی سطح پر فضائی آلودگی کی لیے ایک اہم سبق ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئی فیصلہ کن صورت نکالنا مشکل ہے۔ ہوسکتا ہے فضا میں نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار کم ہو لیکن لوگ گرماہٹ پیدا کرنے کے لیے سستا اور گندا ایندھن کا سہارا لے رہے ہوں۔
جرمنی کی بریمن یونی ورسٹی کے پروفیسر جان ب±روز نہ کہا کہ ’یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ یورپ کے اتنے نزدیک اس کی سرحدوں پر اتنی بڑی لڑائی ہو رہی ہے۔’لیکن شاید اس طرح کی سائنسی معلومات ہمیں چیزوں کو سمجھنے میں مدد دیے سکے۔ لوگوں کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگر شام میں گیسوں کے اخراج میں ۵۰ فیصد کمی آئی ہے تو میرے خیال میں ۵۰ فیصد ہی لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہوا ہے۔‘