نئی دہلی:خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم غیر مشروط طور پر افہام وتفہیم کے جذبے کے ساتھ جلد از جلد بات چیت شروع کریں۔جامع مسجد دہلی کے شاہی امام سید احمد بخاری نے ہندوستان اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیروں (این ایس اے ) کی بات چیت میں تعطل پیدا ہونے پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر روز اول سے ہی مرکز کشمیری رہنماؤں سے بات چیت کرتا رہا تو پھر اب اس سے پرہیز کیوں ہے ؟مولانا بخاری نے آج یہاں یو این آئی اردو سروس سے بات چیت کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری رہنماؤں اور وہاں کے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ جب ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیری بھی ہمارے ہیں۔ کشمیری رہنماؤں اور عوام کا دل جیتے بغیر ہم کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے ۔
امام بخاری نے الزام لگایا کہ کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ ریاست میں قبرستانوں کا رقبہ بڑھ گیا ہے ۔ بے شمار لوگ جیلوں میں بند ہیں اور کھلم کھلا انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم علیحدگی پسند ناگا، بوڈو اور نکسلیوں سے بات کرسکتے ہیں تو پھر کشمیری رہنماؤں کے ساتھ کیوں نہیں۔ انہوں نے مبینہ کشمیری دہشت گردی کے مقابلے میں سیکورٹی فورسیز پر ناگاؤں اور نکسلیوں کے حملے کہیں زیادہ سنگین نظر آتے ہیں اس کے باوجود ہم ان سے بات کرکے انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کشمیر کے معاملے میں ہماری پالیسی اس سے بالکل الگ کیوں ہے ۔شاہی امام نے کہا کہ بات چیت ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے , طاقت یا زور زبردستی سے آپ زیادہ دنوں تک کسی مسئلے کو ٹال نہیں سکتے ۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کے مسئلے میں بقیہ ہندوستان کے 25 کروڑ مسلمان بھی فریق ہیں اس لئے جب بھی کشمیر کے مسئلے پر بات چیت ہوتو اس میں اس فریق کی ضرور رائے لی جانی چاہئے کیونکہ کشمیر کے مسائل یا حل کا بقیہ ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے ۔