ریو ڈی جنیرو: برازیل میں ایک رنگ برنگی ٹوکان (لمبی چونچ والی چھوٹی چڑیا) جو غیر قانونی خرید وفروخت کے دوران اپنی چونچ کا اوپر والا حصہ گنوا بیٹھی تھی اس کو تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے مصنوعی چونچ لگا دی گئی ہے۔
اس مادہ ٹوکان کا نام ٹائٹا ہے اور اسے ریو ڈی جنیرو میں جنگلی حیات کے ایک میلے سے پکڑا گیا تھا۔یہ بات اب تک واضح نہیں ہو سکی کہ آیا اس نے اپنی چونچ پرندوں کے سمگلروں کی بدسلوکی کی وجہ سے گنوائی یا پھر کسی پنجرے میں قید کے دوران کسی بڑے ٹوکان سے لڑائی کے دوران کٹوا دی،جنگلی حیات کے مینیجمنٹ گروپ انسٹیٹیوٹو ویڈا لورے کے اشتراک سے کیے گئے اس اقدام میں تین برازیلی یونیورسٹیاں بھی شامل تھیں۔مصنوعی چونچ پلاسٹک سے بنی ہے جو نیل پالش سے ڈھکی ہے اور اسے ارنڈی کے تیل کے پلانٹ سے تیار کردہ خصوصی پولیمر سے مہربند کیا گیا ہے۔برازیل کی جنگلی حیات کنٹرول کرنے والی ایجنسی ایباما کے ٹیکیانا شیرلوک نے بتایا کہ ٹوکان کو مارچ میں پکڑا گیا تھا۔ اس وقت وہ چونچ کھونے کی وجہ سے بیحد کمزور تھی۔
شیرلوک کے مطابق ٹائٹا جیسی کالی چونچ والی ٹوکان کا شمار ریو کے مقامی پرندوں میں ہوتا ہے اور ان کی نسل معدومیت کے خطرات سے دوچار نہیں ہے۔ اگر اسے قانونی طور پر فروخت کیا جائے تو اس کی قیمت لگ بھگ پانچ لاکھ امریکی ڈالر ہو سکتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ سرجری سے قبل ٹائٹا اپنی چونچ کے نچلے حصے کے ذریعے اپنی غذا کو ہوا میں اچھالتی تھی اور پھر اسے جھپٹنے کی کوشش کرتی تھی۔ اور وہ تین بار کوشش کرنے کے بعد صرف ایک مرتبہ ہی اس کوشش میں کامیاب ہو پاتی تھی۔انسٹیٹیوٹو ویڈا لورے کے ڈائریکٹر راچڈ سیبا کا کہنا ہے کہ ’ٹائٹا کو اس حقیقت کوتسلیم کرنے میں تین دن لگے کہ اس نے اپنی چونچ دوبارہ حاصل کر لی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’ہم اسے پھل کھلا رہے تھے اور وہ اپنی نئی چونچ کو نظرانداز کر رہی تھی۔ لیکن جوں ہی ہم اسے زندہ جانوروں کے درمیان لائے، جیسے کیڑے مکوڑے اور لال بیگ وغیرہ تو اس نے فوری طور پر اپنے انداز میں کھانا شروع کر دیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اپنی چونچ گنوانے سے پہلے جب وہ آزاد تھی تو وہ اس طرح کی خوراک کھاتی رہی ہے۔ اسی لیے اس سے ٹائٹا کی کھوئی ہوئی یادداشت دوبارہ متحرک ہو گئی۔محققین کو اس چونچ کا نمونہ تیار کرنے میں تین ماہ لگے لیکن اسے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے پرنٹ کرنے میں محض دو گھنٹے صرف ہوئے۔ مصنوعی چونچ کا وزن لگ بھگ چار گرام ہے اور یہ چار سینٹی میٹر لمبی ہے۔
ریو دی جنیورو کی وفاقی یونیورسٹی کے چونچ بنانے والے ڈیزائنر گسٹیوو کلے مین کہتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ایک ایسی مصنوعی چونچ تخلیق کی جائے جو لچکدار اور کم وزن کی ہو۔
انہوں نے ایک مردہ جانور کی چونچ کو نمونے کے طور پر استعمال کیا اور اسے ٹائٹا کی اصلی چونچ کی قریب ترین شکل میں ڈھال لیا۔ٹیم اس پروجیکٹ کے ذریعے ایک نئے طریقے کی بنیاد رکھنا چاہتی تھی۔ اگرچہ ساو¿ پاو¿لو میں تحقیق کاروں کا ایک اور گروپ ایک اور زخمی ٹوکان کی مصنوعی چونچ بنا رہا ہے لیکن یہ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کے کام سے لاعلم ہیں۔
کوسٹا ریکا میں اپنی چونچ کا اوپری حصہ گنوا دینے والی ایک ٹوکان کے لیے دس ہزار امریکی ڈالر کی امدای رقم جمع کی گئی لیکن تاحال اس کی سرجری نہیں کی گئی ہے،جانوروں کے ڈاکٹر تھیاگو منیز کا کہنا ہے کہ ٹائٹا کی جراحی کے دوران محض ۴۰ منٹ صرف ہوئے لیکن یہ خطرات سے خالی نہیں تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ مصنوعی چونچ اسے خود کھانے میں مدد ملے گی اور ساتھ ہی جسم میں زیادہ مقدار میں گلینڈز بنانے میں مدد دے گی جو اس کے پروں کو پانی سے محفوظ رکھیں گے۔
محققین کو اس چونچ کا نمونہ تیار کرنے میں تین ماہ لگے لیکن اسے پرنٹر کے ذریعے پرنٹ کرنے میں صرف دو گھنٹے صرف ہوئے،اگر مستقبل میں اس کے بچے ہوئے تو اس مصنوعی چونچ کے ذریعے ٹائٹا اس قابل ہوجائے گی کہ ان کو بھی غذا فراہم کر سکے۔
جنگلی حیات کے کنٹرول کی ایجنسی ایباما اسے تعلیمی چڑیا گھر بھیجنا چاہتی ہے تاکہ جانوروں کی غیرقانونی خرید و فروخت سے متعلق آگاہی دی جا سکے لیکن انہوں اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔
ضروری ہے کہ اسے جہاں بھی بھیجا جائے ایک دوسرے ٹوکان کے ہمراہ رکھا جائے جو پرندوں کی غیرقانونی خرید و فروخت کرنے والوں سے بازیاب کروانے کے بعد ایباما بھیجا گیا تھا۔اس نر پرندے کی چونچ میں بھی کچھ مسئلہ ہے،تحقیق کاروں کو آمید ہے کہ آخرکار نر اور مادہ ٹوکان مل جائیں گے۔ ایباما کا کہنا ہے کہ پھر ان کے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا جائے گا۔