حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے گھروں میں جمع ہونے والی دھول میں اوسطاً ۹۰۰۰ مختلف قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔امریکہ کے شہر بولڈر میں یونیورسٹی آف کولاریڈو کے محققین نے یہ بات امریکہ کے ۱۲۰۰گھروں میں پائے جانے والی دھول کا معائنہ کرنے کے بعد کہی۔انھوں نے دریافت کیا کہ اس دھول میں پائے جانے والے بیکٹیریا اور فنجائی کی مختلف اقسام کا تعلق اس بات پر منحصر ہے کہ گھر کہاں پر واقع ہے، وہاں کون رہ رہا ہے اور انھوں نے کون سے جانور پال رکھے ہیں۔یہ تحقیق طبی جریدے پروسیڈنگز آف دا رائل سوسائٹی بی میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق پر کام کرنے والے ماحولیات اور ارتقائی حیاتیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نوآ فائرر نے بتایا کہ ’یہ دراصل فطرت کی تاریخ ہے جس پر ہم تحقیق کر رہے ہیں۔
’ہمیں کافی عرصے سے معلوم ہے کہ ہمارے گھروں میں جراثیم رہتے ہیں اور ہم جو کر رہے ہیں وہ اب ایک پرانی سائنس ہو چکی ہے، لیکن ہم یہاں یہ معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ مختلف مقامات پر ان کی کون سی اقسام ہوتی ہیں۔‘ہمیں کافی عرصے سے معلوم ہے کہ ہمارے گھروں میں جراثیم رہتے ہیں اور ہم جو کر رہے ہیں وہ اب ایک پرانی سائنس ہو چکی ہے، لیکن ہم یہاں یہ معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ مختلف مقامات پر ان کی کیا اقسام ہوتی ہیں۔یہ تحقیق جس کا نام ’ہمارے گھروں کی جنگلی حیات‘ ہے، شہری سائنس پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس میں امریکہ کے ۱۲۰۰گھروں نے رضاکارانہ طور پر اپنے گھروں کی دھول کے نمونے تحقیق کاروں کو بھیجے۔انھوں نے اپنے گھروں کے دروازوں کے اوپری چھجوں سے دھول جمع کی، جس کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ گھروں کی وہ جگہ ہے جو صفائی کے دوران اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔گھروں سے جمع کی گئی اس دھول کے جینیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ اس میں خوردبینی جراثیم کا پورا جنگل آباد ہے۔تحقیق کاروں نے دریافت کیا کہ ایک گھر میں اوسطاً ۲۰۰۰سے زائد اقسام کی فنجائی پائی گئیں جن میں پھپھوندی اور فنجائی کی دوسری اقسام شامل تھیں۔
فنجائی کے ماحولیاتی نظام کا قطعی اندازہ اس بات پر منحصر تھا کہ وہ گھر کہاں واقع ہے، کیونکہ ڈاکٹر فائرر کا کہناہے کہ گھروں میں پائے جانے والے زیادہ تر فنجائی گھر کے باہر سے آتے ہیں۔’وہ ہمارے کپڑوں اور کھلی ہوئی کھڑکیوں کے ذریعے ہمارے گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ کے گھروں میں پائے جانے والی فنجائی کی اقسام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا گھر کہاں واقع ہے۔‘تحقیق کاروں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ہر گھر میں اوسطاً ۷۰۰۰ اقسام کے مختلف بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا تعلق انسان کی جلد سے ہے، جبکہ کچھ انسانی فضلے میں پائے جاتے ہیں۔لیکن یہاں جراثیم کی اقسام کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ اس گھر میں کون اور کیا رہ رہا ہے۔ڈاکٹر فائرر نے بتایا کہ ’ہم نے ان گھروں میں جہاں خواتین تھیں اوران گھروں میں جہاں صرف مرد رہ رہے تھے مختلف اقسام کے بیکٹیریا پائے۔
’بیکٹیریا کی کچھ اقسام ایسی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں خواتین کے جسم میں زیادہ پائی جاتی ہیں، جس کا ہم گھروں میں پائے جانے والے بیکٹیریا پر براہ راست اثر دیکھ سکتے ہیں۔پالتو جانور بھی گھروں میں موجود جراثیم کے مرکب میں اضافہ کرتے ہیں۔ڈاکٹر فائرر کہتے ہیں کہ ’آپ کے گھر میں پالتو کتے یا بلی کا گھر میں پائے جانے والے جراثیم سے گہرا تعلق ہے۔ہمارے لیے یہ بہت حیرانی کی بات تھی کہ اس بات کا تعلق کسی بھی اور وجہ سے بہت زیادہ تھا، مثال کے طور پر اس وجہ سے بھی زیادہ کہ آپ کا گھر کہاں واقع ہے اور آپ کے گھر کا ڈیزائن کیا ہے۔‘ڈاکٹر فائرر کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تحقیق امریکہ میں ہوئی ہے، اس کے نتائج دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی صادق آ سکتے ہیں۔تحقیق کار اب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گھروں میں ان جراثیم کی موجودگی سے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جبکہ کچھ جراثیموں کا تعلق بیماریوں اور الرجی سے ہے، ان میں سے زیادہ تر بے ضرر ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ڈاکٹر فیرر نے مزید کہا کہ ’لوگوں کو اپنے گھروں میں جراثیم کی موجودگی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہمارے چاروں طرف ہیں۔ وہ ہماری جلد پر ہیں اور ہمارے گھروں میں ہر جگہ موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر بالکل بے ضرر ہیں۔‘