طالبان سے متعلق دستاویزات کو محفوظ کرنے کا منصوبہ سنہ 2012 میں شروع کیا گیا تھا
برطانیہ میں برٹش لائبریری نے دہشت گردی سے متعلق قوانین کے بارے میں تشویش کی وجہ سے طالبان سے تعلق رکھنے والی بہت سی دستاویزات کو محفوظ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
افغان طالبان سے متعلق دستاویزات میں سرکاری اخبار، نقشے اور ریڈیو نشریات شامل ہیں۔
تاہم دانشوروں نے برٹش لائبریری کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے یہ دستاویزات افغانستان میں جاری بغاوت کو سمجھنے کا قابلِ قدر ذریعہ ہیں۔
لائبریری کا کہنا ہے کہ اسے خوف ہےکہ اگر وہ ان دستاویزات کو محفوظ کرتی ہے تو وہ کہیں دہشت گردی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب نہ ہو جائے۔ لائبریری کے مطابق اسے قانونی طور پر صلاح دی گئی ہے کہ وہ طالبان سے متعلق مواد کو قابلِ رسائی نہ بنائے۔
ایلیکس سِٹرک وین لِنشوٹن جو مصنف اور محقق ہیں اور جنھوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد کی تھی، کہتے ہیں کہ لائبریری کا فیصلہ ’حیران کن اور مایوس کن ہے۔‘
’ان دستاویزات میں بم بنانے کی یا اس قسم کی کوئی ترکیب درج نہیں۔ یہ دستاویزات ہیں جو تاریخ کو سمجھنے میں لوگوں کی مدد کریں گی، خواہ افغان اپنے قریب کے ماضی کو جاننے کی کوشش کر رہے ہوں یا باہر کے لوگ اس تحریک کو سمجھنا چاہتے ہوں۔‘
انھوں نے کہا ’کوئی بھی عالم یہ محسوس کرے گا کہ موضوع سے متعلق ابتدائی دستاویزات کو پڑھنا بہت ضروری ہوتا ہے اگر آپ شدت پسند گروہوں کو سمجھنا چاہتے ہوں۔ لیکن برطانوی قانون کے واضح نہ ہونے کے باعث دانشوروں میں اس قسم کے مواد کے بارے میں خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔‘
افغان طالبان سے متعلق دستاویزات میں سرکاری اخبار، نقشے اور ریڈیو نشریات شامل ہیں
ڈبلن سٹی یونیورسٹی میں پرفیسر جیمز فٹز جیرلاڈ کہتے ہیں کہ لائبریری کا فیصلہ ’قطعی طور پر بےوقوفی پر مبنی ہے۔‘ انھوں نے حکومت کو یہ کہتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرایا کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین دانشوروں کو انتہا پسند گروہوں کے بارے میں مطالعہ کرنے میں نروس کر رہے ہیں۔
’ہم پہلے ہی اثرات دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لیکچرار دہشت گردی کے بارے میں مضامین پڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ شک کی زد میں نہیں آنا چاہتے۔‘
طالبان سے متعلق دستاویزات کو محفوظ کرنے کا منصوبہ سنہ 2012 میں شروع کیا گیا تھا اور اس میں برٹش لائبریری کے مشاورتی بورڈ کے ارکان شامل تھے۔ دستاویزات کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے اور ان کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔
لائبریری کے ایک ترجمان نے بتایا’ اگرچہ ان دستاویزات کی تحقیقی قدر تسلیم کی گئی ہے لیکن فیصلہ کیا گیا کہ اس میں کچھ ایسا مواد ہے جو دہشت گردی کے قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے جو لائبریری کی تحقیق کاروں کواس مواد تک رسائی پہنچانے کی صلاحیت کو محدود کر دے گا۔‘
جب برطانیہ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا گیا تو کہا گیا کہ یہ لائبریری کا اپنا مسئلہ ہے۔