ایک نئی تحقیق کے مطابق خون کے ایک ٹیسٹ کے ذریعے سرطان کے کئی ایسے مریضوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں جن میں سرطان علاج کے بعد دوبارہ واپس آگیا ہو۔ڈاکٹروں کو چھاتی کے سرطان کی تشخیص کرنے میں عام طور پر جتنا وقت لگتا، لندن کے کینسر ریسرچ سینٹر کے سائنس دانوں نے اس کا سراغ آٹھ ماہ قبل ہی لگا لیا۔طبی تحقیق کے دوران ۱۵ ایسی خواتین کا ٹیسٹ کیا گیا جن میں سرطان واپس آگیا تھا، اور یہ ٹیسٹ ۱۲ خواتین میں اس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گیا۔
ماہرین کے مطابق ہسپتالوں میں استعمال کیے جانے سے پہلے اس ٹیسٹ پرابھی مزید کام ہونا باقی ہے۔
کینسر کے مریضوں میں رسولی نکالنے کے لیے سرجری بنیادی علاج ہے۔ تاہم رسولی کا آغاز سرطان سے متاثرہ صرف ایک خلیے سے ہوتا ہے۔ اگر رسولی کے کچھ اجزا جسم کے دیگر حصوں میں پھیل چکے ہوں یا سرجن اسے مکمل طور پر نہیں نکال پایا ہو تو سرطان کے واپس آنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔سائنسی جریدے سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق میں ۵۵ ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں رسولی کی جسامت کے پیشِ نظر سرطان کے واپس آنے کا امکانات بہت زیادہ تھے۔
سائنس دانوں نے پہلے تقلیب شدہ (میوٹیٹڈ) ڈی این اے کا جائزہ لیا اور پھر خون میں ویسی ہی تبدیلیوں کی تلاش شروع کر دی۔۱۵ مریضوں میں سرطان واپس آگیا تھا جن میں سے ۱۲ کے بارے میں خون کے ٹیسٹ نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
دیگر تینوں مریضوں کا سرطان دماغ تک پہنچ گیا تھا جہاں دماغ میں موجود بلڈ برین بیریئر کا حفاظتی حصار سرطان کے ذرّوں کو جسم میں گردش کرنے والے خون میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔
اس ٹیسٹ نے ایک ایسے مریض میں بھی سرطان سے متاثرہ ڈی این اے ڈھونڈ لیا جس میں سرطان ابھی تک واپس نہیں آیا ہے۔تحقیق کا حصہ بننے والی کسی بھی خاتون کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ ان میں سرطان سے متاثرہ مواد کی موجودگی کا پتہ چلا لیا گیا ہے، کیونکہ یہ طریقہ کار ابھی تحقیقی مراحل میں ہے اس لیے اس پر کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنا اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتا۔
اگر سرطان کے ابتدائی مراحل میں ہی تشخیص ممکن ہو جائے تو اس صورت میں یہ امید پیدا ہو جاتی ہے کہ مرض کا علاج، مثلاً کیموتھیراپی کا آغاز بھی جلد ہوسکے گا اوراس سے مریضوں کی جان بچانے میں ملے گی۔Image captionماہرین کے مطابق ہسپتالوں میں استعمال کیے جانے سے پہلے اس ٹیسٹ پرابھی مزید کام ہونا باقی ہے’اس تحقیق کے بارے میں ایسا کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں کی جانے والی تحقیق میں اس موضوع پر کام ہو گا۔’ہم یہاں ا±س اصول کی بات کر رہے ہیں جسے کسی بھی قسم کے سرطان کے علاج میں استعمال کیا جا سکے گا جس کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ علاج کے بعد وہ واپس سکتا ہے۔‘خون کا تجزیہ زیادہ مہنگا نہیں ہے، تاہم رسولی کے ڈی این اے میں سرطانی آثار کا تجزیہ اب بھی خاصا مہنگا ہے۔سرطان کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات میں وقت کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ پہلے جو دوا استعمال کی جاتی تھیں وہ جسم میں داخل ہو کر ہر جگہ پھیل جاتی تھیں اور پھر کسی ایک حصے میں موجود رسولی کا علاج کر سکتی تھیں۔ ان کی جگہ اب ایسی ادویات آگئی ہیں جو جسم میں داخل ہو کر خاص رسولی پر ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔ سرطان کی ادویات میں ہونے والی اس پیش رفت سے قیمتوں میں بھی کمی آ رہی ہے۔
کینسر ریسرچ برطانیہ کے ڈاکٹر نِک پیل کہتے ہیں کہ ’سرطان کے مرض کی تشخیص اور مریضوں کے علاج کے لیے کم نقصان دہ طریقے ڈھونڈنا بہت ضروری ہے۔ خون کا ٹیسٹ ایک ایسا ممکنہ طریقہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے مرض کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جا سکتی ہے۔
ایسا مریض کے خون میں شامل ہو جانے والے سرطانی خلیے یا ڈی این اے میں موجود سرطان کے ذرات ڈھونڈنے سے ممکن ہو سکے گا۔’لیکن اس سے پہلے کہ اس ٹیسٹ کو اس قابل بنانا ہے کہ ڈاکٹر اس کا استعمال عمومی طور پر کرسکیں اور اس کے لیے اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔‘