نیو ہورائیزن جولائی کے مہینے میں پلوٹو کے انتہائی قریب سے گزرا تھا اور ا±س نے بونے سیارہ کی تصاویر لی تھیںامریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے نیو ہورائزن خلائی جہاز کو پلوٹو کے قریب سے گزرنے کے بعد ایک نیا ہدف مل گیا ہے۔اس ہدف کو 2014 MU69 کا نام دیا گیا ہے۔یہ ہدف ان دو دمدار ستاروں جیسے اجرامِ فلکی میں سے ایک ہے، جس پر اس مشن پر کام کرنے والے ناسا کے ماہرینِ فلکیات غور پر کر رہے ہیں۔
امریکی خلائی ادارہ مشن کی توسیع کی منظوری سے قبل اس منصوبے کا ازسرِ نو جائزہ لے گا۔ نیو ہورائزن جولائی کے مہینے میں پلوٹو کے انتہائی قریب سے گزرا تھا اور بونے سیارے کی سطح سے اس کا فاصلہ محض 12 ہزار 500 کلو میٹر رہ گیا تھا۔اس خلائی جہاز نے نہ صرف پلوٹو کی تفصیلی تصاویر لی اور ڈیٹا جمع کیا تھا بلکہ شیرن، سٹائکس، نکس، کیربیروس اور ہائڈرا کا، جو کہ پلوٹو کے چاند ہیں، کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا تھا۔
خلائی جہاز کا نیا ہدف پلوٹو سے تقریباً ڈیڑھ ارب کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی چوڑائی 45 کلومیٹر ہے اور خیال ہے کہ اس سے ہی پلوٹو جیسی دوسری بڑی دنیا کا جنم ہوا ہے۔
نیو ہورائیزن کے نئے اہداف
اب جبکہ نیو ہورائیزن پلوٹو سے دور کائیپر بیلٹ کی طرف جا رہا ہے اور نئی دنیا سے آمنا سامنا ہونے کے بعد یہ زمین پر ڈیٹا بھی بھیج رہا ہے، ہم چھان بین کرنے والی مشین کے لیے دور ایک نئی منزل کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مشن کافی کم خرچ ہوگا لیکن اس سے بھی نئی اور زبردست سائنسی معلومات ملیں گی۔ناسا مشن کے سربراہ ایسے چیزیں نظامِ شمسی کا بیرونی حصہ بنتے ہیں جسے کائیپر بیلٹ کہا جاتا ہے ۔
ناسا کے سائنس مشن کے سربراہ جون گرنسفیلڈ کہتے ہیں ’اب جبکہ نیو ہورائزن پلوٹو سے دور کائیپر بیلٹ کی طرف جا رہا ہے اور نئی دنیا سے آمنا سامنا ہونے کے بعد یہ زمین پر ڈیٹا بھی بھیج رہا ہے، ہم چھان بین کرنے والی مشین کے لیے دور ایک نئی منزل کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مشن کافی کم خرچ ہوگا لیکن اس سے بھی نئی اور زبردست سائنسی معلومات ملیں گی۔‘مشن کے ریسرچر ایلن سٹرن نے ناسا کے اس نئے ہدف کو ’زبردست انتخاب‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا اس مشن میں کم ایندھن لگے گا۔گذشتہ سال موسم گرما میں ہبل نامی خلائی دوربین کے ذریعے نیو ہورائزن کے خلائی سفر کے راستے میں پانچ برفیلے اجرام دریافت کیے گئے تھے جنھیں کم کرکے دو تک محدود کر دیا گیا تھا۔اس سال اکتوبر کے آخر یا نومبر میں خلائی جہاز اپنے انجنوں کو جلائے گا تاکہ نئے ہدف کی جانب راستے بنا سکے جس سے اس کا سامنا یکم جنوری سنہ 2019 میں ہو سکتا ہے۔