مشرقی بڈاپیسٹ کے قریب کلیٹی سٹیشن کے باہر تقریبا ایک ہزار پناہ گزین معلق ہیں جو جرمنی اور آسٹریا جانے کا ارادہ رکھتے ہیں
ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ کے ایک اہم ریلوے سٹیشن پر سینکڑوں تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ پولیس نے انھیں یورپ کے کسی دوسرے ملک جانے سے روکنے کے لیے سٹیشن کو بند کر دیا ہے۔
حکومت کے ترجمان زولٹان کوواسک نے ریلوے سٹیشن کے بند کیے جانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہنگری یورپی یونین کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ جنگ اور ظلم و جبر سے تنگ آ کر ہزاروں تارکین وطن شمالی یورپ پہنچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ وہاں جا کر پناہ حاصل کریں جبکہ دوسری جانب یورپی یونین کے ممالک اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مسلسل سفارتی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
بی بی سی کے کرس مورس کا کہنا ہے کہ اس بحران نے پناہ گزینوں کے متعلق یورپی یونین کے نظام میں موجود کمی کو اجاگر کیا ہے۔
تارکینِ وطن سے متعلق یورپی یونین کے اصول جسے ’ڈبلن ضابطہ‘ بھی کہتے ہیں کے مطابق پناہ گزینوں کو اس ملک میں پناہ حاصل کرنی چاہیے جہاں وہ سب سے پہلے داخل ہوئے ہیں۔
ہنگری کو پولیس نے سٹیشن کو دوسرے مسافروں کے لیے کھولا لیکن پناہ گزینوں کو داخل ہونے سے باز رکھا
لیکن اب جبکہ اٹلی اور یونان جیسے ممالک نے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی کثرت تعداد کے پیش نظر انھیں سنبھالنے سے قاصر ہیں اس لیے تارکین وطن اب شمال کا رخ کررہے ہیں۔
اس سے قبل ہنگری نے تارکین وطن کے ری جسٹریشن کی کوششوں کو بظاہر ترک کردیا تھا اور ان کی ایک بڑی تعداد کو پیر کے روز مشرقی بڈاپیسٹ کے قریب کلیٹی سٹیشن پر سفر کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ وہ ویانا اور جنوبی جرمنی جا سکیں۔
لیکن منگل کے روز پولیس نے سٹیشن خالی کروا دیا اور اب تقریبا ایک ہزار پناہ گزین سٹیشن کے باہر موجود ہیں۔
بعد میں سٹیشن پر غیر تارکین وطن مسافروں کو ایک دوسرے دروازے سے داخل ہونے کی اجازت دی لیکن پولیس نے تارکین وطن کو سٹیشن جانے سے روکے رکھا۔
تارکین وطن کی مشتعل بھیڑ نے ’جرمنی، جرمنی‘ کا نعرہ لگایا اور ہوا میں اپنے ٹکٹ لہرائے۔
تارکین وطن کی مشتعل بھیڑ نے ’جرمنی، جرمنی‘ کا نعرہ لگایا اور ہوا میں اپنے ٹکٹ لہرائے
بڈاپیسٹ میں کئی مظاہرین نے یہ شکایت درج کی کہ انھوں نے جرمنی اور آسٹریا جانے کے ٹکٹ کے لیے سینکڑوں یورو ادا کیے ہیں۔
شام کے شہر حلب کی ایک 20 سالہ خاتون مراہ نے بتایا کہ ان کے خاندان نے ویانا جانے کے لیے چھ ٹکٹیں خریدی ہیں۔
انھوں نے خبررساں ایجسی روئیٹرز کو بتایا ’انھیں اس کا حل نکالنا چاہیے۔ ہم ہزاروں لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں، ہم کہاں جائیں۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم ہنگیریئن ہلسینکی کمیٹی نے کیلٹی سٹیشن کے حالات کو ’انتہائی کشیدہ اور ناقابل پیش گوئی‘ قرار دیا۔
نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہنگری کا یہ قدم پناہ گزینوں کی کثیر تعداد سے نبرد آزما یورپی یونین کے دوسرے ممالک کی جانب سے دباؤ کا نتیجہ ہے۔
پیر کو تقریبا 3650 پناہ گزین ٹرین سے ویانا پہنچے جن میں سے بہت سے آگے جرمنی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جبکہ جرمنی کی پولیس کا کہنا ہے کہ منگل کے روز 3500 پناہ گزین بواریا پہنچے جبکہ بلجیئم اور سویڈن نے بھی پناہ گزینوں کی آمد میں اضافے کی خبر دی ہے۔
یورپی ممالک میں غیر قانونی تارکین وطن کا بحران جاری ہے اور اس کے حل کے لیے مسلسل کوششیں جاری ہیں
ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر زیجارٹو نے منگل کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب ہنگری تمام پناہ گزینوں کا اندراج کرے گا اور اُن کے خیال میں ایسے افراد جنھوں نے معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کی ہے انھیں اس ملک واپس بھیج دے گا جہاں سے وہ ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم وکٹر اوربان جمعرات کو یورپی یونین کے سینیئر حکام سے برسلز میں ملنے والے ہیں۔
خیال رہے کہ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد 1،07،500 تک پہنچ گئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔
جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال اس کے یہاں آٹھ لاکھ پناہ گزین پہنچیں گے جو کہ گذشتہ سال کا چار گنا ہے۔
جرمنی کے وزیر محنت آندریا ناہلیز نے کہا کہ آئندہ سال 24،000 سے 46،000 تک پناہ گزین سماجی فوائد حاصل کرنے کے اہل ہوں گے جس کا مطلب حکومت کو اربوں یورو کا بار اٹھانا ہوگا۔
جرمنی نے شامی پناہ گزینوں کو درخواست دینے کی اجازت کا اعلان کر رکھا ہے
جرمنی نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ دوسرے یورپی ممالک سے آنے والے شامی پناہ گزینوں کو ان کے ملک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہوگی۔
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ڈبلن ضابطے اب بھی قائم ہیں اور ہم یورپی یونین کے رکن ممالک سے ان کی پاسداری کی امید کرتے ہیں۔‘
دریں اثنا یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس نے کہا ہے کہ ’جعلی شامی پاسپورٹ کا کاروبار‘ بطور خاص ترکی میں شروع ہو چکا ہے۔
فرنٹیکس کے سربراہ فیبری لیگری نے فرانسیسی ریڈیو کو بتایا: ’انھیں معلوم ہے کہ شامی باشندوں کو یورپی یونین میں پناہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔‘