ایجنسیاں،ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کو بروئے کار لانے کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور کرسمس کے بعد منعقد ہو گا۔ یہ بات ان چھ ممالک کی ایک خاتون ترجمان نے اتوار کے روز بتائی۔
خیال رہے کہ امریکا سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی نے گزشتہ ماہ جنیوا میں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت تہران حکومت اپنے جوہری منصوبے کے بعض حصوں کو منجمد کرنے پر تیار ہے۔ اس کے بدلے میں اس کے خلاف پابندیاں نرم کی جائیں گی جس سے اسے سات بلین ڈالر تک کا فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
اس معاہدے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے بات چیت کا دوسرا دور کسی حتمی اتفاق رائے کے بغیر ہی گذشتہ روز جنیوا میں اختتام پذیر ہوا۔ دونوں اطراف کے ماہرین گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اس بات پر اتفاق رائے کے لیے ملاقاتوں میں مصروف رہے ہیں کہ فریقین کی جانب سے اعتماد سازی کے اقدامات اور بعض دیگر لوازمات کے حوالے سے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ اس حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور ویانا میں اور دوسرا جنیوا میں ہوا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے اتوار 22 دسمبر کو ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ ایشٹن چھ ممالک کے گروپ کی کوارڈینیٹر ہیں۔ ایشٹن کی خاتون ترجمان مایا کوشیانچک کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات چیت میں طے کیا کہ مذاکرات کا سلسلہ کرسمس کے باعث فی الحال معطل کر دیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ ان تیکنیکی مذاکرات کی بحالی نئے برس کے آغاز سے قبل ہو جائے گا۔‘‘
ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جنیوا میں ہونے والے تین روزہ جوہری مذاکرات میں تھوڑی بہت پیشرفت ہوئی ہے۔ ایرانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عراقچی نے البتہ کہا کہ سلامتی کونسل کے مستقل پانچ رکن ممالک اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
ایران اور چھ ممالک کے گروپ کی جس میں برطانیہ، چین، روس، فرانس اور امریکا کے علاوہ جرمنی شامل ہیں، خواہش ہے کہ جنیوا ڈیل پر عملدرآمد ابتدائی طور پر چھ ماہ کے لیے جنوری کے آخر سے شروع ہو جائے۔ ان چھ ماہ کے دوران مزید تفصیلی مذاکرات کے بعد حتمی معاہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔