اٹلی کی وزیر خارجہ نے ایران کے دورے میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کی: ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی قوتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے نفاذ میں ’سست رفتاری‘ کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایما بونینو ان دنوں تہران کے دورے پر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رشتے استوار‘ ہو رہے ہیں لیکن ’راستے دشوارگذار‘ ہیں۔
گذشتہ ماہ ایران نے چھ عالمی قوتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے کا معاہدہ کیا ہے جس کے عوض ان کے خلاف پابندیوں میں نرمی کی بات کہی گئی ہے۔
اتوار کو تہران میں مز بونینو نے کہا: ’دونوں جانب سے بہت زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو کہ اتنے زیادہ دنوں کے عدم یقین کی دین ہے۔‘
بہرحال انھوں نے جوہری معاہدے کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا: ’طرفین اچھی نیت کے ساتھ پوری کوشش کریں گے کہ ان میں معاہدہ ہو جائے۔‘
وراثت
“دونوں جانب سے بہت زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جو کہ اتنے زیادہ دنوں کے عدم یقین کی دین ہے”
ایما بونینو
اتوار کو ہی ایرانی وزیر خارجہ نے یوروپین یونین کی سربراہ سفارت کار کیتھرین ایشٹن کی اس بات سے اتفاق کیا کہ بات چیت کو کرسمس کے بعد کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔
انھوں نے بات چیت میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں سے ’پریشان کن مسائل‘ سے دور رہنے کی بات کی تاہم انھوں نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا۔
ایران کی جانب سے مذاکرات کرنے والے پی 5+1 گروپ (امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی) سے معاہدے کے نفاذ سے قبل اس کی جزیات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
اس تکنیکی مذاکرات کے پہلے دور کی بات چیت گذشتہ مہینے اس لیے ملتوی کردی گئی کیونکہ امریکہ نے پابندیوں کی فہرست میں اضافہ کر دیا تھا۔
بہر حال اقوام متحدہ کے جوہری ایجنسی کے معائینہ کاروں نے اس معاہدے کے تحت دوسال میں پہلی بار 8 دسمبر کو ایران کے اراک ہیوی واٹر پلانٹ کا دورہ کیا۔
جنیوا معاہدے کے امریکی اور اسرائیلی ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کی توسیع کے لیے پردہ مل جائے گا۔
رواں ماہ کے شروع میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس کے ایک پینل کے سامنے اس معاہدے کا دفاع کیا تھا اور اضافی پابندیاں لگانے کی مخالفت کی تھی۔
واضح رہے کہ مغربی ممالک ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن ایران کا کہنا ہے کہ ان کا پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔