ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے افسردہ افراد جن کے خیالات میں ہیجان اور اضطراب پایا جاتا ہو، ان میں سے ۵۰ فی صد خودکشی کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔
یورپین کالج آف نیورو سائیکو فارما کالوجی یعنی ’ای سی این پی‘ نے ایک تحقیق میں کہا ہے کہ اس قسم کے رویے خودکشی کی بہت سی کوششوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس کے لیے موثر احتیاطی تدابیر کی ’فوری ضرورت ہے۔‘عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق ۲۰۱۲ میں دنیا بھر میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد نے خودکشی کی۔ای این سی پی نے اس تحقیق کے دوران ۲۸۱۱ ایسے مریضوں کا تجزیہ کیا جو ذہنی دباو¿ کا شکار تھے۔ ان میں سے ۶۲۸ افراد ایسے تھے جو ماضی میں خودکشی کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔محققین نے خاص طور پر ان افراد کی خصوصیات اور رویوں کا جائزہ لیا جو ماضی میں خودکشی کی کوشش کر چکے تھے۔
انھیں معلوم ہوا کہ خودکشی کی کوشش کرنے سے پہلے ایک خاص قسم کا رویہ بار بار ظاہر ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خوکشی کرنے کا خطرہ اس وقت ۵۰ فی صد زیادہ ہو جاتا ہے جب: جب کوئی ذہنی دباو¿ میں مبتلا شخص لاپروائی سے ڈرائیونگ کرے یا پھر متعدد لوگوں سے جنسی تعلق رکھے عصبی اضطراب کا شکار ہو، مثلاً کمرے میں بار بار چکر لگانا اور ہاتھ بار بار ملنا۔ اضطراری حالت، جس میں کوئی شخص کسی عمل کے مضمرات کے بارے میں سوچے بغیر اس میں کود پڑے ڈپریشن کے مریضوں میں خودکشی کی کوششوں سے قبل اس قسم کی گڈمڈ علامات اکثر پائی جاتی ہیں۔ ان گڈمڈ علامات میں ڈپریشن کے ساتھ ساتھ جوش اور جنون کی ملی جلی کیفیت شامل ہوتی ہیں۔تحقیق میں شامل ایک محقق ڈاکٹر ڈائنا پوپووچ کا کہنا ہے کہ ’ڈپریشن کے مریضوں میں خودکشی کی کوششوں سے قبل اس قسم کی گڈمڈ علامات اکثر پائی جاتی ہیں۔ ان گڈمڈ علامات میں ڈپریشن کے ساتھ ساتھ جوش اور جنون کی ملی جلی کیفیت شامل ہوتی ہیں۔مائیکل مینزفیلڈ کیو سی کی بیٹی اینا نے رواں سال کے آغاز میں خودکشی کر لی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی موت ’اچانک ہی واقع ہو گئی۔انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کے دو بچے تھے اور ان کا کریئر بہت کامیاب تھا، کسی کو بھی نہیں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ خودکشی کرنے کے قریب ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’میں ان تحقیق کاروں کا خیر مقدم کرتا ہوں جو اپنا وقت صرف کر کے ایسے رویوں کی اقسام کے بارے میں معلومات جمع کریں کیونکہ اینا کے واقعے میں اس کے رویے تبدیل ہو رہے تھے اور میں سمجھ نہ سکا۔‘