نیویارک: اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ اور اسرائیل کے اقتصادی محاصرہ سے حالات بہت خراب ہیں اور اگر غزہ کی اقتصادی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو پانچ سال سے بھی کم عرصے میں غزہ ‘رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی و تجارت نے غزہ کی معیشت کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ آٹھ برسوں سے غزہ کا اقتصادی محاصرہ اور چھ برسوں کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تین جنگوں سے معیشت تباہ ہو گئی ہے۔ گذشتہ برس اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی جنگ سے پانچ لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی اور غزہ کے بعض علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ نے ‘متوسط طبقے کی جمع پونجی ختم کر دی ہے اور تمام آبادی کا انحصار اب بین الاقوامی امداد پر ہے۔’ غزہ کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) گذشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد کم ہوئی ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح 44 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ غزہ میں موجود 72 فیصد خاندانوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگوں کی وجہ سے غزہ کی برآمدات ختم ہو گئی ہیں۔ مقامی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیدوار نہیں ہو رہی ہے اور بار بار جنگ سے تعمیر و ترقی اور بحالی نہیں ہو پا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو آئندہ پانچ سال سے بھی کم عرصے میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ غزہ میں 2007 میں حماس کی حکومت آنے کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ ایک ایسے موقعے پر سامنے آئی ہے جب مصر کی فوج نے سمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی زیر زمین سرنگ بھی مسمار کر دی ہے۔ یہ زیر زمین سرنگ پانی، خوراک اور اسلحے کی فراہمی کا واحد ذریعہ تھی۔ رپورٹ میں 2015 میں فلسطینی علاقے میں اقتصادی ترقی کو ‘مایوس کن’ قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام، امداد میں کمی اور تعمیرِ نو میں سست رفتاری سے اقتصادی حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔