امریکی، برطانوی اور آسٹریلوی محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہم نے سمندر صاف کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو 2050ئتک دنیا بھر کے 99 فیصد سمندری پرندے حادثاتی طور پر پلاسٹک کھا چکے ہوں گے اور جن سے ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔دنیا میں اپنی نوعیت کے اس پہلے جائزے کو مرتب کرنے والی ٹیم کے سربراہ کرس ولکوکس کہتے ہیں کہ اس جائزے کو ترتیب دینے کے لیے دنیا بھر سے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔ اس کے مطابق موجودہ حالات میں دنیا بھر کے تقریباً 60 فیصد سمندری پرندوں کی خوراک کی نالی میں پلاسٹک موجود ہے جبکہ آن پرندوں کی شرح نوے فیصد ہے، جو پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کے باوجود ابھی زندہ ہیں۔
محققین کہتے ہیں کہ سمندری پرندوں کے معدوں میں موجود پلاسٹک میں گزشتہ پچاس برسوں کے دوران مستقل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر 1960ء کی بات کی جائے تو صرف پانچ فیصد سمندری پرندے اس سے متاثر تھے جبکہ 2010ء4 تک اس شرح میں 80 فیصد تک کا اضافہ ہو چکا تھا۔اس جائزے سے منسلک ڈینیس ہارڈیسٹی کہتی ہیں کہ انہیں ایک پرندے کے معدے سے پلاسٹک کے دو سو ٹکڑے ملے تھے۔ اس رجحان سے سب سے زیادہ متاثر جنوبی سمندر ہیں، جہاں مختلف قسم کی سمندری حیات پائی جاتی ہیں اور جن میں پنگوئن اور بہت بڑے پروں والا آب دوست پرندہ ’البتروس‘ بھی شامل ہے۔ڈینیس ہارڈیسٹی مزید کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں سادہ اور چھوٹے پیمانے پر اٹھائے جانے والے اقدامات بہت زیادہ مو¿ثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ان میں اشیاءکی پیکنگ کو تبدیل کرنا اور پلاسٹک بیگز کے استعمال میں کمی یا اس طرح کے بیگز کی قیمت بڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔“ وہ مزید بتاتی ہیں کہ یورپ میں پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کافی نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔