آر ایس ایس کی جتنی بھی تنقید کریں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی بات کہنے سے جھجھکتے ہیں یا مبہم زبان استعمال کرتے ہیں
سیاست میں کب کیا ہو جائے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ ابھی دہلی میں اورنگزیب روڈ کی تختی پر اے پی جے عبدالکلام کے نام کی سیاہی سوکھی بھی نہیں تھی کہ ہندو قوم پرست نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ’بھائی‘ پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے۔
آر ایس ایس کی آپ جتنی بھی تنقید کریں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی بات کہنے سے جھجھکتے ہیں یا مبہم زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی گھر واپسی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے تو تنظیم کے سربراہ موہن بھاگوت لاکھوں کے مجمے میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنا ’چوری‘ کا مال واپس لے رہے ہیں، اس میں شرم کیسی؟
اس لیے جب تنظیم نے بی جے پی کی حکومت سے تین روز کے صلاح مشورے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ حکومت کو پاکستان سے تعلقات بہترکرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تو بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا ہوگا۔ کیا آر ایس ایس نے اکھنڈ بھارت کا خواب ترک کردیا ہے؟
آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور باقی ہمسایہ ممالک کبھی ایک ہی جسم (ہندوستان) کا حصہ ہوا کرتےتھے، اور ’ایک ہی کنبہ ہو۔۔۔تو بھائیوں میں اختلافات ہو ہی جاتے ہیں‘ اور جن قوموں کے درمیان تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے رشتے ہیں، ان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
آر ایس ایس اپنی بات کہنے سے جھجھکتے نہیں ہیں
یہ بالکل غیرمعمولی مشورہ ہے جس کے غیرمعمولی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے خود یہ واضح کیا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے رکن ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی بھی، اب یہ مشورہ ملنے کے بعد شاید دونوں سر جوڑ کربیٹھے ہوں گے کہ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے کیا بہانہ اختیار کیا جائے، اور شاید ذہن میں یہ سوال بھی ضرور آیا ہوگا کہ اگر بات کرنی ہی تھی تو 15 دن پہلے بھی بتا سکتے تھے!
لیکن آر ایس ایس بہت ’ڈسپلنڈ‘ تنظیم ہے، اس کے رکن کبھی عوامی پلیٹ فارم سے کوئی ایسا بیان نہیں دیتے جو اس کے بنیادی نظریات سے ہم آہنگ نہ ہو۔
اب ہندوستان اور پاکستان اور خطے کے باقی ممالک بھائی چارے کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے، لیکن ایک چھوٹا سا مسئلہ ابھی باقی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے مذہب کی بنیاد پر آبادی کے اعداد و شمار جاری کیے تھے جن سے الگ الگ نتائج اخذ کیے گئے۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ گذشتہ دس برسوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ کم ہوئی ہے لیکن ہندو تنظیموں نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی آبادی کا تناسب پہلی مرتبہ 80 فیصد سے کم ہوا ہے اور اب آر ایس ایس نے اس پس منظر میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مغل بادشاہ اورنگزیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں ان سے بڑی کسی کی حکومت نہیں تھی
کمیٹی کی سفارشات کا انتظار رہے گا لیکن ایک ہندو مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ دو سے زیادہ بچے پیدا کریں تو انھیں سزا دی جانی چاہیے اور تعلیمی اداروں، نوکریوں اور راشن کارڈ تک ان کی رسائی روک دی جانی چاہیے!
ہوسکتا ہے کہ آر ایس ایس کی کمیٹی یہ سفارش کرے کہ جیسے انڈیا اور پاکستان بھائی ہیں، ویسے ہی ہندو اور مسلمان بھی، اور بھتیجے بھتیجیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں، سزاؤں کا ذکر نہیں ہوتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اگر کنبہ چھوٹا ہوگا تو بچوں کی بہتر پرورش کی جاسکتی ہے۔
اور ہاں، اورنگزیب روڈ کی نئی تختی پر بھی نگاہ رکھیے گا، کہیں راتوں رات نام دوبارہ نہ تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اورنگزیب عالم گیر نے 300 سال پہلے اکھنڈ بھارت کا سپنا سچ کرکے دکھایا تھا، اس وقت مغلیہ سلطنت کی سرحدیں اکھنڈ بھارت کے اس تصور کے بہت قریب تھیں جو آر ایس ایس کے رہنماؤں نے سنہ 1960 کے عشرےمیں پیش کیا تھا۔
اب اورنگزیب روڈ کو اس کا نام واپس ملتا ہے یا نہیں اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ آر ایس ایس اورنگزیب کو اصل اکھنڈ بھارت کا معمار تسلیم کرتی ہے یا نہیں!