لندن: اہرام مصر میں موجود ہزاروں سال پرانی شاہی خاندان کی لاشیں یعنی ممیز کے چہروں پر لپٹی پٹیوں کی وجہ سے ان کے اصل شکل و صورت سے لوگ آج تک واقف نہیں ہوسکے لیکن اب ان پراسرار چہروں سے پردہ اٹھانے کی ٹیکنالوجی متعارف کرادی گئی ہے اور یوں لوگ جان سکیں گے کہ ہزاروں سال قبل لوگوں کے چہرے کیسے ہوتے تھے۔
برطانیہ کی لیورپول جون مورس یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق میں اس نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کراتے ہوئے ماہرین نے مصری شہنشاہیت ۱۸کے دور کی ایک کینٹ نامی ممی چہرے کو فرانزک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اصل شکل کو سامنے لایا گیا ہے جب کہ اس کے سٹی اسکین سے یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ اس شخص کی مرتے وقت عمر ۵۰سال تھی۔
اس ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر میٹیو بورینی نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کینٹ نامی اس ممی کو اصل چہرہ دیا جب کہ اسکینینگ کے عمل سے سائنس دان اس ممی کی بلکل ٹھیک کاپی کرنے میں کامیاب رہے اور اس دوران انہیں چہرے پر لگی پٹیوں کو بھی ہٹانے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسکین کی مدد سے چہرے کے مسلز کو دوبارہ بنانے میں بھی مدد ملی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ مصرکے عجائب گھر میں موجود یہ ممی سب سے قدیم اور اس کا تعلق اس دور کے انتہائی بااثر خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر بورینی نے کراس ریفرینسنگ ک استعمال کرتے ہوئے ممی کے چہرے کو ناپا اور اسے اصل شکل دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنس دان اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ لاکھوں سال قبل مرے انسان کے پورٹریٹ کی مددسے اصل چہرہ سامنے لا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بورینی نے کہا کہ ان ممیز کے بالوں کا اندازہ لگانا کافی مشکل تھا تاہم یونیورسٹی آف فلورینس کے پروفیسر لیپی اور مصر میوزیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ کی مشترکہ کوششوں سے یہ ممکن ہوگیا اور ممیز کے بال بھی وجود میں لائے جاسکے۔