واشنگٹن: ہندوستان میں خواتین کو روزگار کے معاملے میں کئی قسم کی بندشوں کا سامنا کرا پڑتا ہے۔ اور انہیں عوامی مقامات پر جنسی استحصال سے تحفظ فراہم کرانے کےلئے کوئی خصوصی قانون نہیں ہے۔ یہ بات عالمی بینک کی نئی رپورٹ میں ایشیا کی اس سب سے بڑی معیشت کے بارے میں کہی گئی ہے۔ عالمی بینک نے کل جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں خواتین کےلئے ملازمت کے معاملے میں کئی قسم کی پابندیاں ہےں۔
خواتین کو کانکنی یا ایسے میدانوں میں روزگار نہیں کرنے دیا جاتا ہے جہاں ایک حد سے زیادہ وزن اٹھانا پڑتا ہے وہ شیشے کے کارخانوں میں بھی کام نہیں کر سکتیں قانون کے تحت خواتین کے ایسے روزگار اختیار کرنے پر بھی بندش ہے جن میں زندگی، صحت یا اخلاقیات سے متعلق خطرات ہوں۔ رپورٹ تیار کرنے والی خاتون نے حالانکہ اس کی ایک وجہ قدیم برطانوی دور کے قوانین کے نافذ رہنے کو بھی بتایا ہے۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہاں اس کے علاوہ عوامی مقامات پر خواتین کی جنسی استحصال سے تحفظ کوئی خصوصی قانون نہیں ہے حالانکہ دنیا کی ۱۸ دیگر معیشتوں میں یہ قانون ہے۔ عالمی بینک نے خواتین، کاروبار اور قانون ۲۰۱۶ءنامی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ ۲ برس میں ہندستان نے رپورٹ کے دائرے میں شامل حلقوں میں سے ایک میں اصلاح کی ہے شیئر بازار میں درج فہرست کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائرکٹر نے کم سے کم ایک خاتون رکن کی تقرری کو لازم کئے جانے کے ساتھ ہی ہندوستان ایسا کرنے والا واحد ترقی پزیر ملک بن گیا ہے اور دنیا کے ان ۹ ممالک میں شامل ہو گیا ہے جہاں کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائرکٹر نے خواتین کی موجودگی کو لازم قرار دیا گیاہے۔ رپورٹ تیار کرنے والی سارا اقبال نے کہا کہ میں ہندوستان میں روز گار کے معاملے میں کچھ بندشوں کے بارے میں کہنا چاہوں گی کہ اس کا بڑا سبب برطانوی دور کے قدیم قانون کا ہونا ہے۔ اس میں خصوصی طور پر میرا مطلب فیکٹری قانون سے ہے جو برطانیہ کے تسلط کے دور کا ہے انہوں نے کہا کہ اسی طرح کے قانون آپ کو پاکستان، سریلنکا اور بنگلہ دیش میں بھی مل جائیں گے۔ اور حقیقت میں ان میں ایسے کاموں کو کافی محدودکر دیا گیا ہے جنہیں خواتین کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ جمائکا میں بھی یہی فیکٹری قانون نافذ ہے جس میں حال ہی میں انہوں نے دو برس قبل اصلاح کی ہے اور انہوں نے کچھ روزگاروں اور کارخانوں میں خواتین کے کام کرنے کی بندش کوختم کردیا ہے۔