نئی دہلی:شاہی امام مولاناسیداحمدبخاری بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر وہاں قائم ہونے والے جنتا دل یونائٹیڈ (جے ڈی یو) ، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)سماج وادی پارٹی (ایس پی)اور کانگریس کے اتحاد ‘مہا گٹھ بندھن ’سے سماج وادی پارٹی کے الگ ہونے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیراعلی اکھلیش یادو کو لکھے گئے خط میں کہاہے کہ پارٹی کے اس قد م سے ملک کے سیکولر ، جمہوریت اور انصاف پسند عوام خاص طور پر مسلمان بہت بے چینی محسوس کررہے ہیں اس لئے پارٹی کو اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔انہوں نے خط میں کہا ہے کہ آج ملک کے اتحاد ، یک جہتی اور مستقبل پر خطرہ کے بادل منڈلارہے ہیں ۔
فرقہ پرست طاقتیں ننگی فرقہ پرستی پر اتر آئی ہیں اور فرقہ پرستوں کے چوطرفہ حملوں سے خاص طورپر مسلمان خود کو گھراہوا محسوس کررہے ہیں”۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یاد و کے نام ایک خط میں مولانابخاری نے الزام لگایا کہ آزادی کے بعد سے آج تک تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کااستحصال کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ انصاف سے محروم رکھا ہے ۔ اور مرکز وصوبوں کی نام نہاد سیکولر سرکاروں کی پالیسیوں نے پسماندگی کے معاملہ میں مسلمانوں کو دلتوں سے بھی بد تر حالت میں پہنچادیاہے ۔سماجوادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو کی طرف سے کسی مسلم لیڈرکو بہار میں وزیراعلیٰ کاامیدوار بنائے جانے کی قیا س آرائیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اترپردیش میں مسلمان 20 فیصد ہیں اور یادو 8 فیصد اسکے باجود کسی مسلم لیڈر کو وزیراعلیٰ بنایا جاناتو دور نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کے قابل بھی نہیں سمجھاگیا۔ بہار میں وہ کس بنیادپر کسی مسلم لیڈر کو وزیراعلیٰ کا امیدواربنانے کی باتیں کررہے ہیں۔
بہار میں موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر سماجوادی پارٹی سے اپنے فیصلہ پر نظرثانی کی اپیل کرتے ہوئے شاہی امام نے کہاکہ سماجوادی پارٹی کے اس فیصلے کے بعد اس پر بی جے پی سے سازباز کے الزامات لگ رہے ہیں اور ایسے الزامات سے یوپی میں 2017 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے امکانات بری طرح متا¿ثر ہوں گے ۔انہوں نے کہاکہ یہ دنیا جانتی ہے کہ اترپردیش کے پچھلے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے ملائم سنگھ یادو کی سیکولرامیج پر یقین کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کو اقتدار سونپا اور رہاست میں فرقہ پرستی وذات پات کی سیاست کرنے والوں کواقتدار میں آنے سے روک دیا تھا۔شاہی امام نے اپنے خط میں ان یقین دہانیوں کا بھی ذکر کیا جوملائم سنگھ یادو نے یوپی اسمبلی انتخابات سے پہلے کرائی تھی۔ مولانابخاری نے مایوسی کے ساتھ کہاکہ “ آج تین سال سے زیادہ وقت گزرگیاہے لیکن جیلوں میں بند بے گناہ لوگوں کی رہائی ، سچرکمیٹی کی رپورٹ پر عمل در آمد، فورسز میں مسلمانوں کی بھرتی، ریاست میں سرکاری اردومیڈیم اسکول، مسلمانوں کو ریزرویشن ، اردوٹیچروں کی تقرری اور دیگر امور پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔ حالانکہ ملائم سنگھ یادو نے ان تمام مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔”ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے مولانابخاری نے کہاکہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی کم ہوتی نمائندگی کے لئے تمام سیکولر پارٹیاں ذمہ دارہیں۔انہوں نے الزام لگایا یہ ان پارٹیوں نے جان بوجھکر مسلمانوں کی آواز دبانے کیلئے انہیں کم ٹکٹ دیئے اور جن حلقوں میں ٹکٹ دیئے گئے وہاں غیرمسلم ووٹروں نے مسلم امیدوار کو ووٹ نہیں دیاجبکہ مسلم ووٹروں نے ہمیشہ اپنے حلقوں سے غیر مسلم امیدواروں کو یک مشت ووٹ دیکر کامیاب بنایا۔بہار اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں ان کی نمائندگی یقینی بنانے کیلئے اگر سیکولر پارٹیوں نے مسلم امیدوار میدان میں اتارنے اورا نہیں کامیاب بنانے کیلئے ایماندارانہ کوششیں نہیں کیں توپھر مسلمانوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی طاقت اور اپنی قیادت کی بنیاد پر اپنی سیاست کریں۔مولانابخاری نے کہاکہ پارلیمانی اورریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی آبادی کے تناسب کے مطابق بڑھانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمان خود سیاسی طاقت بنیں تاکہ 65 سال سے جاری نا انصافی، انسانی حقوق کی پامالی، زندگی کے ہرشعبہ میں پسماندگی اور تعصب و فرقہ پرستی کاخاتمہ کیاجاسکے ۔