انتظامیہ کا خیال ہے کہ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر اور چوراہوں پر اگر پنجرے نصب کیے جائیں اور لڑکوں کو سزا کے طور پر ان میں بند کیا جائے تو چھیڑ چھاڑ کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے مظفر نگر شہر میں اب جو منچلے لڑکےسکول اور کالجوں کے باہر لڑکیوں کو چھیڑتے ہوئے پکڑے جائیں گے انھیں پولیس پنجروں میں بند کرنے کی تیاری میں ہے۔
انتظامیہ کا خیال ہے کہ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر اور چوراہوں پر اگر پنجرے نصب کیے جائیں اور لڑکوں کو سزا کے طور پر ان میں بند کیا جائے تو چھیڑ چھاڑ کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی ایک اور فیصلے پر آج کل ریاست مہارشٹر میں بھی بحث جاری ہے۔
بھارت کی کئی دوسری ریاستوں کی طرح مہاراشٹر میں بھی جین مت کے احترام میں گوشت کے فروخت پر تو عارضی پابندی عائد کی گئی ہے لیکن وہاں آپ مجھلی خرید بھی سکتے ہیں اور کھا بھی سکتے ہیں۔
حکومت کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی سے نکلتے ہی مچھلی خود بخود مرجاتی ہے، اسے مارا نہیں جاتا لیکن شاید کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ مچھلیاں خود پانی سے باہر نہیں نکلتیں، انھیں نکالا جاتا ہے۔
بہرحال حکمران کبھی جلد بازی میں اور سوچے سمجھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے، انھوں نے بِلا شبہہ پہلے اس تازہ تحقیق کا مطالعہ کیا ہوگا کہ ’ریڈ میٹ‘ نہ کھانے یا کم کھانے سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور مچھلی کھانے سے کم ہو جاتا ہے۔
حکومت نے سوچا ہوگا کہ جین مت کے ماننے والوں کا بھی احترام بھی ضروری ہے لیکن اس دوران قربانی دینے والوں کی صحت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بہر حال گوشت پر پابندی سے شو سینا بہت ناراض ہے۔ کون کب گوشت کھا سکتا ہے اور کب نہیں، اس بحث میں شو سینانے جین برادری سے ایک حیرت انگیز سوال پوچھا ہے کہ مسلمان تو پاکستان جاسکتے ہیں، جینی کہاں جائیں گے؟
واضح رہے کہ شو سینا خود بی جے پی کے ساتھ مہارشٹر کی حکومت میں شامل ہے۔
ہندی سیکھنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں
بچپن میں مجھے بھی بالکل ہندی نہیں آتی تھی، میں نے ہندی چائے بیچتے بیچتے سیکھ لی: نریندر مودی
ہندی ہو یا کوئی بھی دوسری زبان، اس پر مہارت حاصل کرنا آسان نہیں۔ اگر آپ کو خود تجربہ نہ ہو تو آپ کے استاد آپ کو بتائیں گے کہ نئی زبان سیکھنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن یہ مشورہ عام آدمیوں کے لیے ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہےکہ بچپن میں انھیں بھی بالکل ہندی نہیں آتی تھی، انھوں نے ہندی چائے بیچتے بیچتے سیکھ لی۔
نریندر مودی کا کہنا ہے ’میری مادری زبان ہندی نہیں گجراتی ہے لیکن مجھے ٹرینوں میں چائے بیچتے وقت ہندی سیکھنے کا موقع ملا۔ ممبئی میں جو لوگ دودھ بیچتے ہیں وہ زیادہ تر اتر پردیش کے رہنے والے ہیں اور بھینس خریدنے گجرات آتے تھے، انھیں گجراتی نہیں آتی تھی اور مجھے ہندی لیکن میں نے انھیں چائے بیچتے بیچتے میں نے ہندی سیکھ لی، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے ہندی نہ سیکھی ہوتی تو میرا کیا ہوتا، میں زبان سیکھنے کی اہمیت جانتا ہوں۔‘
یہ ہی آدمی آدمی کا فرق ہوتا ہے، وہ دودھ بیچنے والے آج تک صرف دودھ ہی بیچ رہے ہیں اور انھیں یہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ انھوں نے ایک چائے بیچنے والے کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچانے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے؟
اتر پردیش کو اپنے دودھ بیچنے والوں پر اتنا ہی فخر کرنا چاہیے جنتا گجرات کو اپنے چائے بیچنے والوں پر ہے اور جہاں تک گوشت بیچنے والوں کا سوال ہے آج کل ان کے پاس وقت بھی کافی ہے اور موقع بھی، انھیں بھی کوئی دوسری زبان سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو لوگ گجرات سے جانور خرید کر لاتے ہیں، انجام کار تو انھیں کے پاس پہنچتے ہوں گے۔