امریکہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دو روز قبل ہی 80 ٹن امداد لے کر دو روسی کارگو جہاز شام پہنچے ہیں
امریکہ نے کہا ہے کہ حال ہی میں شام کے شہر لاذقیہ کے قریب روسی نقل و حرکت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وہاں ’فارورڈ ایئر آپریٹنگ بیس‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بات پیر کو پینٹاگون کے ترجمان جیف ڈیوس نے کہی۔ انھوں نے بتایا کہ ساحلی علاقوں سے لوگوں اور سازوسامان کی منتقلی کا عمل جاری ہے۔
امریکہ اور نیٹو کی تشویش
تاہم دوسری جانب روس نے کہا ہے کہ شامی حکومت کو فوجی ہتیھاروں کی منتقلی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے لڑنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2011 سے شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے لیے ماسکو اہم اتحادی رہا ہے۔
’کوئی اضافی اقدامات نہیں‘
اس سے قبل بھی روس کی جانب سے شام میں امداد بھجوائی گئی تھی
پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ شام میں روسی فوج کی نقل و حرکت سے امریکہ اور اتحادی افواج کی جانب سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔
نیو یارک میں موجود بی بی سی کی نامہ نگار باربرا پلٹ کے مطابق امریکی حکام کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ روسی حمایت صدر بشار الاسد کی حکومت کو ایک ایسے وقت میں مستحکم کرے گی جب وہ میدانِ جنگ میں ہار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس جنگ کا سیاسی حل نکالنے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششیں بھی پیچیدگی کا شکار ہو جائیں گی۔
خیال رہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دو روز قبل ہی 80 ٹن امداد لے کر دو روسی کارگو جہاز شام پہنچے ہیں۔
روسی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ جہاز مہاجرین کی خیمہ بستی کے لیے ٹینٹ لے کر شام پہنچے ہیں۔
امریکی حکام کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ روسی حمایت صدر بشار الاسد کی حکومت کو ایک ایسے وقت میں مستحکم کرے گی جب وہ میدانِ جنگ میں ہار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس جنگ کا سیاسی حل نکالنے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششیں بھی پیچیدگی کا شکار ہو جائیں گی۔
نامہ نگار
اگرچہ روس نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ وہ شام میں کوئی اڈہ قائم کر رہا ہے تاہم روس کے وزیرِ دفاع سرگے لاوروف نے اپنے بیان میں گذشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ اگر شام نے کہا تو روس اسے مزید مدد فراہم کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ روس موجودہ معاہدوں کے تحت شام کو فوجی ہتھیار اور امداد فراہم کر رہا ہے۔ تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کو باغیوں کی جانب سے زمینی سطح پر بڑا نقصان ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے روس شام کو اضافی فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی بلغاریہ نے روسی ایئر کرافٹ کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے سے روکا تھا۔ جس کے بعد روس نے کہا تھا کہ اسے ایران نے اپنی فضائی حدود سے گزر کر شام جانے کے لیے متبادل راستہ فراہم کرنے کی اجازت دی ہے۔
گذشتہ بدھ کو بھی امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب کو فون کر کے انھیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔ جبکہ نیٹو افواج کے سربراہ جینز سٹولن برگ کے مطابق اگرعسکری سرگرمیوں میں اضافے کی اطلاعات درست ہیں تو شام میں روس کی مداخلت تنازعے کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوگی۔