احمد کے والد کو خدشہ ہے کہ یہ واقعہ احمد کے مسلمان ہونے کی وجہ سے پیش آیا تھا
امریکی ریاست ٹیکسس کی پولیس نے 14 برس کے اس مسلمان لڑکے کے خلاف مقدمہ درج نہ کا فیصلہ کیا ہے جسے گھر میں بنائی ہوئی گھڑی سکول لانے پرگرفتار کر لیا گیا تھا۔
اِروِنگ میں میک آرتھر ہائی سکول کے اہلکاروں نے اس گھڑی کو ’بم‘ سمجھ کر پولیس کو بلا لیا تھا۔ لیکن گھڑی بنانے والے احمد محمد کی گرفتاری پر ہر جگہ بڑی تنقید ہوئی اور اس بچے کے لیے جگہ جگہ ہمدردی کا اظہار ہوا۔ حتیٰ کہ صدر براک اوباما نے بھی گھڑی کی تعریف کی ہے اور احمد کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی ہے۔
احمد کے خاندان کو یقین ہے کہ انھیں نام کی وجہ سے حراست میں لیا گیا۔
’آئی سٹینڈ وِد احمد‘
’آئی سٹینڈ وِد احمد‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر ہزاروں صارفین نے احمد کی گھڑی کی تعریف کی اور ان کو حراست میں لیے جانے پر سوال اٹھایا۔ ان افراد میں ناسا کے سائنس دان، فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ اور امریکہ کے صدر براک اوباما شامل ہیں۔
اِروِنگ کے محکمۂ پولیس کے سربراہ لیری بوئڈ نے بدھ کو کہا ’ہمارا مسلم کمیمونٹی سے بہت ہی اچھا تعلق رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات چیلنج بن کر سامنے آتے ہیں۔ ہم یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں اور اس واقعہ سے مثبت پہلو کیسے نکال سکتے ہیں۔‘
احمد کو حراست میں لیے جانے کے بعد ہتھکڑی لگائی گئی اور اس کے فنگر پرنٹس لیے گئے۔ لیکن جب یہ طے ہوگیا کہ اس سے کوئی خطرہ نہیں تو اسے رہا کر دیا گیا۔
’آئی سٹینڈ وِد احمد‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر ہزاروں صارفین نے احمد کی گھڑی کی تعریف کی اور ان کو حراست میں لیے جانے پر سوال اٹھایا۔ ان افراد میں ناسا کے سائنس دان، فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ اور امریکہ کے صدر براک اوباما شامل ہیں۔
صدر اوباما نے ٹویٹ کیا ’ احمد شاباش، آپ نے بڑی اچھی گھڑی بنائی۔ آپ اسے وائٹ ہاؤس لانا چاہیں گے؟ ہمیں آپ جیسے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تاکہ انھیں بھی سائنس پسند آئے۔ اس طرح کے کام ہی امریکہ کو ایک عظیم ملک بناتے ہیں۔‘
احمد محمد نے کہا کہ وہ اپنی گھڑی نرنگ کے شہر میں میک آرتھر ہائی سکول اپنے انجینئرنگ کے استاد کو دکھانے لیکر گئے تھے
احمد کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے گھر پر گھڑی بنائی تھی اور انجینیئرنگ کے استاد کو دکھانے کے لیے اسے سکول لے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ استاد نے انھیں مبارک دی لیکن ساتھ ہی نصیحت کی کہ وہ یہ گھڑی ’دوسرے اساتذہ کو نہ دکھائیں۔‘
لیکن نوجوان احمد نے بتایا کہ جب کلاس میں سبق کے دوران گھڑی سے بیپ کی آواز آئی تو ایک استانی کو اس گھڑی کا علم ہوگیا۔ ’اس ٹیچر نے کہا کہ یہ تو بم لگتا ہے۔‘
احمد کی بنائی ہوئی اس گھڑی میں ایک سرکٹ بورڈ ہے جس کے ساتھ تاریں جڑی ہوئی ہیں جو ڈیجیٹل ڈسپلے تک جاتی ہیں۔
اس واقعے کے بعد احمد کو کلاس سے باہر لایا گیا، ہیڈ ٹیچر اور چار پولیس اہلکاروں نے ان کا انٹرویو کیا اور انھیں بچوں کے سزا خانے میں لے جایا گیا۔
بعد میں سکول نے ایک بیان جاری کیا کہ ’ہم نے اپنے طالب علموں اور عملے سے کہا ہوا ہے کہ وہ اگر کوئی مشکوک چیز دیکھیں تو فوراً اس کی اطلاع کریں۔‘
احمد کے والد نے محمد الحسان محمد جن کا تعلق سوڈان سے ہے کہا کہ ان کے بیٹے کو اس کے نام’اور 11 ستمبر کی وجہ سے‘ برے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکن اسلامک ریلیشن کونسل کی عالیہ سلیم اس بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’اگر لڑکے کا نام احمد محمد نہ ہوتا تو اس طرح کے سوال ہی نہ اٹھتے۔ وہ پرجوش لڑکا ہے اور بہت ذہین ہے اور اسے اپنے اساتذہ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔‘