جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی کتاب شائع ہوئی تھی تب کسی کے ذہن میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن برقی کتب شائع ہوںگی یہاں مراد ہے ”ای بکس “ سے جن کے حوالے سے شائع ہوئی ۔ منوبہ سال رواں میں امریکہ میں شروع ہوگا جب کہ آئندہ سال اس کی وسعت عالمگیر سطح تک پھیل جائے گی اس وقت گوگل پبلشروں سے معاہدہ کرنے میںمصروف ہے ان معاہدوں کی تفصیلات اگلے چند ہفتوں میں دنیا بھر کے میڈیاکے سامنے ہوں گی ۔گوگل کے ترجمان نے اخبار نویسیوں سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ گوگل اس سال امریکہ میں اپنے ای بکس اسٹور کا آغاز کررہاہے تاہم ترجمان نے مزید تفصیلات دینے سے انکار کردیا۔
گوگل بکس کا یہ منصوبہ یقیناان کمپنیوں کیلئے مشکل صورت حال پیدا کرے گا جو ای بکس کے حوالے سے اجارہ دارانہ مقام تک پہنچ چکی ہیں اس وقت ای بکس کے حوالے سے سب سے بڑی انٹرنیٹ کمپنی ایمیزون ہے لیکن لگتایہ ہے کہ گوگل کے ای بکس اسٹور کے فعال ہوتے ہی ایمیزون اپنی یہ پوزیشن کھودے گی نہ صرف یہ کہ ای بکس بیچنے والی کمپنیوں کو مشکل صورت حال پیش آئے گی بلکہ وہ کمپنیاں جو ای بُکس کو پڑھنے کے قابل بنانے کے حوالے سے سافٹ ویئر پروگرامز بناتی ہیں انہیں بھی نقصان سہنا پڑے گا کیونکہ گوگل کا ی بُکس پڑھنے کیلئے کسی مخصوص سافٹ ویئر کی ضرورت نہیں پڑے گی جیسا کہ ایمیزون کے ای بکس کیلئے ضروری ہے ۔گوگل کی اس نئی پیشکش کے ساتھ بہت سے ایسے اجزاءبھی شامل ہیں جنہیں دیکھ کریوں لگتاہے کہ وہ گوگل ای بُکس کی مقبولیت کو حدسے زیادہ بڑھادیں گے ۔ مثال کے طور پر یہ فری کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ صارفین کیلئے اپنے ای بُکس اسٹور میں رکھ رہے ہیں گوگل جوسب سے بڑی سہولت دے رہاہے وہ یہ ہے کہ قاری مخصوص ڈیوئسز کی حدبندیوں کی مصیبت سے چھٹکارہ پالے گا ۔
ای بکس کے حوالے سے یہ بہت بڑٹکنالوجی شفٹ ہے ابھی تک صورت حال یہ تھی کہ آپ کو ای بُکس پڑھنے کیلئے اسے ڈاو¿ن لوڈنگ کیلئے کسی ڈیوائس کی ضرورت پڑتی تھی گوگل جو سہولت دے رہاہے جسے ویب کے ساتھ رابطے کیلئے استعمال کیا جاسکے گا یہ مشین چاہے آپ کا موبائل ہولیپ ٹاپ ہو ڈیسک کمپیوٹر ہو یا پھر سب سے اہم بات آپ کا ٹیبلیٹ کمپیوٹر جو اگلے چند برسوں میں موبائل اورکمپیوٹرس کی طرح عام ہوجائے گا گوگل کی یہ سہولیات وہ انقلابی تبدیلیاں کہی جاسکتی ہیں جو ای بُکس کی دنیا کا نقشہ مکمل طورپر بدل دیں گی ۔
گوگل بُکس کی خریداری کیلئے صرف اس کی ویب سائٹ ہی دستیاب نہ ہوگی بلکہ آزاد بُکس اسٹور اوران کی ویب سائٹسبھی گوگل ای بُکس بیچ سکیں گے ۔یہ امراس کی سرکولیشن کو کئی گناہ بڑھادے گا کسی آزاد بک اسٹور سے اگرگوگل کی کتاب بکتی ہے گوگل بک اسٹور اورپبلشرکی آمدنی کاتناسب کیاہوگا یہ جاننے کیلئے ایک امریکی بک اسٹور کے مالک کا موقف جانتے ہیں ۔
فرض کریں ایک کتاب دس ڈالر میںبکتی ہے جو بک اسٹور اسے بیچے گا اسے 2,3 ڈالر ملیں گے ۷۰ سینٹ گوگل کے اکاو¿نٹ میں جائیں گے جب کہ پبلشر کو سات ڈالر ملیں گے اس لئے گوگل کا یہ منصوبہ پبلشرز کیلئے مفید ثابت ہوگا کہ انہیں عموماً اتنا منافع نہیںملتا ۔امریکی شہرسینٹ لوئیس کے سب سے پرانے کتاب گھر Left Book Bank steele jarekگوگل کے ای بُکس اسٹور کے حوالے سے اپنی رائے میں کہتے ہیں ۔
اس میں کچھ اچھی باتیں ہیںتو کچھ بری اس سے ایمیزون کی اجارہ دارانہ حیثیت ختم ہوجائے گی آزاد بک اسٹور اورپبلشری بھی نفع حاصل کرسکیں لیکن میرے خیال میں آزاد بک اسٹوروں اور گوگل کے درمیان یہ معاہدہ اور نفع کا تناسب زیادہ دیر تک نبھنے والا نہیں ہے ۔steele jare نے اس حوالے سے امریکن بک سیلرز اسوسی ایشن (ابے بی اے)کو ای میل بھیجا جس کے جواب میں اسوسی ایشن کہنا تھا کہ گوگک سے معاہدہ کے دوران چند بنیادی حقائق طے کر لئے گئے ہیںکہ اگر مستقبل میںاے بی اے کے ممبران میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے تو نفع کی شرح میں کمی یا اضافہ کیا جاسکتا ہے یا ڈر ہے کہ اے بی اے کے تحت رجسٹرڈ تقریباً۲۰۰ بک اسٹور نے گوگل سے معاہدہ کر لیا ہے دنیا میں جس بڑی تعدادی میں گوگل کی ویب سائٹ استعمالکی جاتی ہے اور اس کے صارفین کی جو بے تحاشہ تعداد موجود ہے اسے سامنے رکھے تو اندازہ بیجانہ ہوگاکہ اگر اس مصوبے کو مہارت کے ساتھ روبہ عمل لایا جاتا ہے تو تیزی سے پھیلتی ہوئی برقی کتب کی اس منڈی کے پھیلاﺅ میں بے تحاشہ اضافہ ہو سکتا ہے کمپیوٹر یا انٹرنیٹ شائع شدہ کتابوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتا یہ وہ عام نقطہ¿ نظر ہے عام طور پر ماہرین سماجیات اختیار کرتے ہیں مگر اس صورت میں کیا کیا جائے اگر کمپیوٹراور انٹر نیٹ ہی کتابیں ڈیسک تک پہنچانا شروع کر دیں ۔