پشاور: پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی شہر پشاور میں واقع فضائیہ کے ایک اڈہ پر آج علی الصبح طالبان نے دھوا بول دیا ۔ جسمیں 13افراد ہلاک ہوگئے ۔ ایک فوجی ترجمان نے یہ اطلاع دی ہے ۔گزشتہ کئی ہفتوں میں کسی فوجی تنصیب پر یہ پہلا بڑا حملہ ہے ۔کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے قریب انقلاب روڈ پر پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے بڈھ بیر کیمپ پر مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا، سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں 13 حملہ آور ہلاک ہوئے جبکہ آپریشن میں 10 سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ۔دہشت گردوں نے صبح 6 بجے کے قریب حملہ کیا۔کور کمانڈر پشاور کارروائی کی نگرانی کے لیے بڈھ بیر کیمپ پہنچے ۔کارروائی کے دوران 13 دہشت گرد ہلاک جبکہ 10 سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ۔زخمیوں میں فوج کے 2 افسران بھی شامل ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے پشاور پہنچے ۔فوج کے محکمہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں بتایا کہ پشاور کے قریب پاک فضائیہ کے بڈھ بیر کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ابتدائی میں حملہ آوروں کی تعداد 7 سے 10 کے درمیان بتائی گئی تھی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے بڈھ بیر میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پی اے ایف کیمپ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا.آپریشن کے ساتھ ساتھ بڈھ بیر کیمپ کے اندر اور اطراف کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا، جس میں متعدد افراد کو حراست میں لیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔آئی ایس پی آر نے واقعے میں زخمیوں کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے حملے میں سریع الحرکت فورس کے میجر حسیب سمیت دیگر اہلکار فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہوئے .فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ممکنہ دہشت گردوں کی موجودگی کے حوالے سے کیمپ میں کلیئرنس آپریشن شروع کیا گیا۔آئی ایس پی آر نے یہ بھی بتایا کہ کور کمانڈر پشاور بھی بڈھ بیر کیمپ پہنچے اور آپریشن کی نگرانی خود کرتے رہے ۔
اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا تھا کہ دہشت گردوں نے علی الصبح کیمپ کے گارڈ روم پر حملہ کیا تاہم فوج کی سریع الحرکت فورس نے موقع پر پہنچ کر ان دہشت گردوں کو گھیر کر گارڈ روم کے قریب ہی روک لیا۔ان کا کہنا تھا کہ حملے کے مقام کی فوری طور پر فضائی نگرانی بھی شروع کر دی گئی جبکہ اسٹریٹجک اثاثوں کے حوالے سے بتایا کہ تمام اثاثے محفوظ ہیں.دوسری جانب پشاور میں بڈھ بیر ائیر فورس کیمپ پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ، کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک ای میل کے ذریعے صحافیوں کو حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق مطلع کیا۔سیکیورٹی حکام کے مطابق دہشت گردوں نے جہاں حملہ کیا ہے یہاں ائیر فورس کے افسران اور اہلکاروں کی رہائش گاہیں موجود ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے پشاور میں پی اے ایف کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے ۔دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا بہت جلد خاتمہ کیا جائے گا۔خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے پی اے ایف کیمپ کا دورہ کیا۔
میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حملہ قابل مذمت ہے ، پولیس نے حملے کے فوراً بعد ہی علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔مشتاق غنی نے مزید کہا کہ حملہ آوروں کی تعداد 7 سے 10 تھی، تمام دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاع ملی، دہشت گرد بیس تک جانا چاہتے تھے ، فوج نے سازش ناکام بنا دی، دہشت گرد ختم ہورہے ہیں اسی لیے ایک اور ناکام حملہ کیا گیا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حملے کی پیشگی اطلاع موجود تھی اور حساس اداروں نے 31 اگست کو سیکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا.خیال رہے کہ پاک فوج نے 10 جون 2014 کو کراچی ائیر پورٹ حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔آپریشن ضرب عضب میں کامیابی سے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ خیبر ایجنسی میں اکتوبر میں آپریشن خیبر – ون شروع ہوا جس میں شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر خیبر ایجنسی آنے والے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا۔آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر-ون میں بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اس حملے میں 130 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے ۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے میں بچوں کی ہلاک کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا جس کے تحت آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جبکہ 6 سال سے سزائے موت پر غیر اعلانیہ طور پر عائد پابندی ختم کرکے پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف بہت زیادہ تیزی سے کارروائیاں کی گئیں، اسی وجہ سے خود کش حملوں میں کمی آئی جبکہ دہشت گردی کے بڑے واقعات بھی گزشتہ برسوں کی بہ نسبت کم ہوئے ۔رواں برس 31 جنوری کو شکار پور میں خود کش دھماکہ کیا گیا تھا جس میں 60 افراد مارے گئے تھے جبکہ اس کے بعد 14 فروری کو پشاور میں ہی ایک امام بارگاہ پر خود کش حملے میں 22 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔گزشتہ ماہ 17 اگست کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحد پر واقع شہر اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ پر خود کش حملہ کر کے ان کو ہلاک کیا گیا اس حملے میں 17 دیگر افراد ہلاک ہوئے تھے ۔یاد رہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے بڈھ بیر حملے سے قبل بھی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔