فریقین کے درمیان تین دہائیوں سے جاری مسلح تصادم میں 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں
ایمین سیگیریگا نے اس روز سے گولیوں کے تین خول سنبھال کر رکھے ہوئے جس روز ان کی بیٹی پر گولی چلائی گئی تھی۔ چوتھی گولی اُس کی 10 سالہ بیٹی سیمائل کی فوری ہلاکت کا سبب بنی۔
غم اور سکتے کے عالم میں ایمین اپنے باغیچے میں بیٹھی ہے۔ اُس کی بیٹی کی ایک تصویر اس کے لباس پر جڑی ہوئی ہے۔
جولائی میں کردوں کی عسکریت پسند تنظیم ’پی کے کے‘ اور ترکی کی حکومت کے درمیان دو سال کی طویل جنگ بندی کے معاہدہ کے ناکام ہونے کے بعد سے جیزرہ شہر کو بدترین فسادات سامنا ہے۔
علاقے میں نو دن سے کرفیو نافذ ہے سیمائل کے لیے کوئی ایمبولینس نہیں آئی اور اس کا خاندان اس کی تدفین کے لیے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتا۔
ایمین کہتی ہیں’یہ گولی نامعلوم مقام سے چلائی گئی۔ سیمائل مرکزی دروازے کے پاس تھی۔ میں اُس کا نام پُکارتی ہوئی اُس کی جانب دوڑی۔ وہ چلائی ’ماما‘ اور پھر وہ مرگئی۔‘
ایمین نے بتایاکہ ’میں صبح تک سیمائل کو اپنے ساتھ لگائے اور اُس کا ہاتھ پکڑے بیٹھی رہی۔‘
اس کے بعد میں اسے فریج تک لے کر گئی اور میں نے اس کی لاش کو فرج میں رکھ دیا۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ گل سڑ جائے۔ ہم نے اُسے دو دنوں تک وہاں رکھا جب تک ہم اُسے دفنا نہیں لیتے۔‘
ایمین کی دس سالہ بیٹی کی ہلاکت نے انھیں انتہائی رنجیدہ کر دیا ہے
ایمین نے اپنے فریج کا اگلا دروازہ کھولا اس دوران اس کے بچے سخت خوفزدہ نظر آرہے تھے۔ وہ مجھے اپنے خاندان کے تاریک ترین دور کی کرب ناک یادیں دکھانے کے لیے لے گئی۔
ایمین نے کہا ’سیمائل ایک فرشتہ تھی۔ وہ میری رُوح کا حصہ تھی۔ حکومت کس طرح ماؤں کو یہ درد دے سکتی ہے؟ خدا کے لیے ہمیں بتاؤ تم ہم سے اور کیا چاہتے ہو؟‘
جنوب مشرقی ترکی میں ایک خودکش حملے کے بعد تشدد شروع ہوگیا تھا جو کرد اکثریتی علاقوں تک پھیل گیا۔ اس تشدد کا الزام دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم پر لگایا جاتا ہے۔ تاہم کرد اسے ترکی کی حکومت اور دولتِ اسلامیہ کی مشترکہ سازش قرار دیتے ہیں۔ اس کی جوابی کارروائی میں پی کے کے(کُردستان ورکرز پارٹی) نے ترکی کے دو پولیس اہلکاروں کو گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔
ترکی نے عراق اور ترکی میں پی کے کے، کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا دوبارہ آغاز کیا اور نتیجتاً دونوں جانب سے تشدد شروع ہوگیا۔
کرد باغی گرہوں کے بم حملوں میں اب تک 120 ترک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ سینکڑوں عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کیا جاچکا ہے۔
فریقین کے درمیان تین دہائیوں سے جاری مسلح تصادم، جس میں 40 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ایک بار پھر شدت اختیار کرچکا ہے۔
جیزرہ شہر میں جنگ کے واضح نشانات موجود ہیں۔
عمارتیں گولیوں اور گولہ بارود سے چھلنی ہیں۔ پتھروں اور ریت کی بوریوں سے بنائے گئے عارضی مورچے اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ علاقے میں نقل وحمل کے دوران جابجا پولیس کی مسلح گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔
حکومت کے مطابق جیزرہ میں آپریشن پی کے کے ، کے مسلح ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا اور ہلاک ہونے والے افراد میں محض ایک عام شہری تھا جبکہ دیگر کا تعلق عسکریت پسندوں سے ہے۔
دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 20 سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے۔
ملیشیا کے ارکان کے مسلح مورچوں تک ہماری رسائی بہت تھی۔ انہوں نے پیٹریاٹ یوتھ موومنٹ یا وائی ڈی جی-ایچ قائم کر رکھا ہے جسے پی کے کے کا یوتھ ونگ کہا جاتا ہے۔
ہمیں جیزرہ کی سڑکوں پر لوگ ملے جن میں بچے بھی شامل تھے اور جن کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پتھر تھے۔ وہ صف بند تھے۔ ان کے مطابق یہ پتھر انھوں نے اپنے دفاع کے لیے اُٹھا رکھے تھے۔
18 سال کے دو لڑکے ہم سے مزید گفتگو کے لیے ایک گھر کے اندر لے گئے۔ انھوں نے ہمیں آتش زن، دستی بموں کی پیٹیاں، پیٹرول سے بھری بوتلیں، کپڑے کی بنی ایک آتشیں ڈوری، اور وہاں رکھی کئی رائفلیں بھی دکھائیں۔
رات کے وقت وہ پیٹرول بم اور رائفلیں لے کراپنے علاقے تک آنے والے راستوں کو بند کرکے ان کے داخلی حصوں پرپہرہ دیتے ہیں ۔ انھوں نے اسے’ایک آخری حربہ قراردیا۔‘ انھوں نے بتایا کہ وہ دیگر ٹیموں کے ساتھ واکی ٹاکی فون کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔
اُن میں سے ایک نے بتایا کہ ’پولیس نے ہمارے والدین اور بچوں کو مارا ہے۔ ہم بندوقیں استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ میں ایک طالب علم ہوں میں اپنے قلم کا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن آپ ایک دشمن کے خلاف اپنا دفاع قلم کے ذریعے کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ اُن کی جنگ ہے۔ یہ صدر طیب اردگان کی جنگ ہے۔‘
انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہتھیار چلانے کی تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ جس پر میں نے اس سے پوچھا کہ یعنی یقینی طور پر وہ پی کے کے میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔
جزیرہ شہر میں جنگ کے واضح نشانات موجود ہیں
انھوں نے جواب دیا ’اگر میرے دیگر دوستوں کو مار دیا گیا تو یقیناً میں اُن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے شمولیت اختیار کرلوں گا۔‘
اچانک اُنھیں رات میں پولیس کے ممکنہ آپریشن کی اطلاع موصول ہوئی۔ جس سے خوف وہراس پھیل گیا، مکینوں نے ذیلی سڑکوں کو گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردیا۔ ایک گروپ نے ٹرک کو دھکا دے کر ایک طرف کیا تاکہ ہم علاقے سے باہر نکل سکیں۔ یہ جنگ ایک ایسے خود رو پودے کی مانند ہے جو تیزی سے بڑھ رہا ہو۔
حکومت تیزی سے بڑھتی مخالفت پر قابو پانے، دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے اور پی کے کے کو (جسے یورپی یونین اور امریکہ نے ترکی کی شدت پسند تنظیموں کی درجہ بندی میں شامل کیاہے) کچلنے کے لیے جیزرہ اور گردونواح میں آپریشنز کررہی ہے۔
رواں ہفتے ماردین شہر کے قریبی علاقے میں سڑک کنارے نصب ایک بم پھٹنے سے تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ تدفین کے وقت تینوں پولیس اہلکاروں کے تابوت ترکی کے پرچموں میں لپٹے ہوئے تھے۔ انھیں’شہید‘ قراردیا گیا۔
رواں ہفتے ماردین شہر کے قریبی علاقے میں سڑک کنارے نصب ایک بم پھٹنے سے تین پولیس اہلکار ہلاک ہوئے
مرنے والے دو پولیس اہلکاروں میں سے ایک کا بھائی روتے ہوئے تابوت سے ٹکریں ماررہا تھا۔ اچانک اُس کے آنسو تھم گئے اور وہ غم کی شدت کے باعث بے ہوش ہوکر گرپڑا۔
ماردین کے گورنر عمر فاروق کوکک کا کہنا ہے کہ’پی کے کے کو یہ دہشت گردی ختم کرنا ہوگی یہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین جُرم ہے۔
’ترکی بھی دیگر ممالک کی طرح شدت پسند تنظیموں کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ عام شہریوں کے درمیان رہ رہے ہیں اور انسانوں کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر طیب اردگان نے پی کے کے سے دوبارہ تنازعے کا آغاز جون میں ہونے والے غیر فیصلہ کُن انتخابات اور اس سے پہلے نومبر میں ہونے والےسروے میں قوم پرستوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیاہے۔
طیب اردگان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ کردوں کی حمایت یافتہ ایچ ڈی پی پارٹی کو کچلا جائے اور اسے حکومت میں اکثریت حاصل کرنے سے بھی محروم کردیا جائے۔ حالیہ تنازعات میں قوم پرستوں کی جانب سے پورے ملک میں ایچ ڈی پی کی عمارتوں پر حملے کیے گیے۔ حکومت حامی ذرائع ابلاغ جس نے لفظ ’دہشت گرد‘ پھیلانے میں اہم کردار اداکیا، ان کی جانب سے ان حملوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
لیکن کوکک کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ اُن کے مطابق’یہ ایک احمقانہ دعویٰ ہے کیوں کہ ترکی کی حکومت نے کبھی بھی انسانی زندگیوں پر سیاست نہیں کی۔‘
جیزرہ کے قبرستانوں میں گذشتہ ہفتے مرنے والوں کی قبریں ماضی کے مسلح تشد میں ہلاک ہونے والوں کے قریب ہی بنائی گئی ہیں۔
ترکی میں روز بروز بدنظمی میں اضافہ ہورہا ہے اور اب تک دونوں جانب سے شدید تصادم جاری ہے جس کے تباہ کُن نتائج نکل سکتے ہیں۔