اقوامِ متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا ہے کہ رواں ماہ ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں عالمی رہنماؤں کو فلسطینی پرچم لہرانے کی دعوت دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ نے یہ قدم امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کے باوجود اٹھایا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس 30 ستمبر کی تقریب میں شرکت کریں گے۔
اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عمارتوں کے سامنے فلسطین کا پرچم لہرانے کی تجویز پر قرارداد کے حق میں اکثریت نے ووٹ دیا تھا۔
سفیر ریاض منصور نے نامہ نگاروں سے کہا ’یہ ہمارے لیے ایک فخر کا دن ہوگا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ سینکڑوں رہنما صدر عباس کے ساتھ اس لمحے کا جشن منانے کے لیے اس تقریب میں شرکت کریں گے۔‘
اسرائیل، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت آٹھ ممالک نے یہ کہتے ہوئے اس اقدام کے خلاف ووٹ دیا کہ یہ صرف ایک علامتی اشارہ ہے اور امن کی راہ کے لیے فائد مند نہیں ہوگا۔
لیکن منصور کا کہنا ہے کہ یہ پرچم فلسطینیوں کے لیے ’امید کی کرن‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کی خواہش کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک آزاد ریاست اور اقوام متحدہ کے مکمل رکن بننا چاہتے ہیں۔
اس سے پہلے سنہ 2012 میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دیتے ہوئے اسمبلی میں ہونے والی بحث میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔
گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ نے 193 ریاستوں کے پرچم کے ساتھ فلسطینی پرچم کے لہرانے کی قرارداد کی منظوری دی تھی۔
اسی دن پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر سفارتی حل کی تلاش میں وہ ایک اجلاس کی میزبانی کریں گے جس میں اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس کے رہنماؤں شرکت کریں گے۔
گذشتہ اپریل میں امریکہ نے امن کے مذاکرات میں سفارتی کوششیں کی تھی جو کہ ناکام ہو گئی تھی۔