پاکستان کے سب سے بڑے افسانہ نگار کو سعادت حسن سے منٹو بننے میں جتنی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا، اس توڑ پھوڑ سے جنم لینے والی کہانیاں معاشرے کے لیے زناٹے دار تھپڑ ثابت ہوئیں اور منٹو کے لیے گالیاں۔
منٹو ایک آدمی نہیں پورے عہد کا نام تھا۔ ایک ایسا عہد، جس میں سچے ادیب کی تخلیقی اذیت قسط وار فروخت ہو رہی تھی۔ وہ اپنے خون سے سینچے ہوئے احساسات کو افسانوں میں قلم بند کر رہا تھا، ہر کہانی اس کی آنکھیں سرخ اور زخم ہرے کر رہی تھی۔
معاشرے کی برہنگی اور ہجرت کے مصائب کا کرب لکھنے کی پاداش میں منٹو کے دامن پر کئی ہاتھ پڑے، لیکن اس کے تخلیقی بہاؤ پر کوئی بند نہ باندھ سکا۔ وہ کہانیاں لکھتا گیا اور معاشرے کے چہرے سے نقاب الٹاتا گیا۔ معاشرے اور منٹو کے مابین جنگ میں جیت منٹو کی ہوئی، اسی لیے آج تک اس کا فن اور شخصیت موضوعِ بحث ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں نمائش ہونے والی فلم ”منٹو“ ہے۔ اس کوایک فقرے میں لکھا جائے، تو یہ فلم سعادت حسن کی زندگی کی عکاس ہے، نہ کہ منٹو کے بارے میں۔
فلم کے پوسٹر پر لکھے جملے کے مطابق اس کو ”سوانحی فلم“ کے طور پر بنایا گیا۔ تکنیکی طور پر ایسی فلم میں حقیقی کرداروں اور واقعات پر انحصار کیا جاتا ہے، جو کسی حد تک اس فلم میں ہیں بھی، مگر مجموعی طور پر نہیں۔ شاہد محمود ندیم نے فلم کا اسکرپٹ لکھا، مگر نہ جانے مسودے کی تکمیل کے لیے کیا ذرائع استعمال کیے، وہ بہتر جانتے ہوں گے، لیکن یہ بات حتمی ہے کہ فلم کے تمام واقعات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، اور اس فلم کی کہانی میں فکشن کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے۔
میں جو یہ بات اتنے یقین سے لکھ رہا ہوں، وہ منٹو کی زندگی کے آخری برسوں میں ان کے انتہائی قریب رہنے والے ایک شاگرد نے مجھ سے کہی ہے، وہ خود بھی عہدِ حاضر کا ایک بڑا ادیب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشرے نے جس طرح منٹو کو دربدری اور فاقہ کشی کی زندگی کی طرف دھکیلا، اسی طرح یہ ادیب بھی منٹو جیسی معاشرتی فراموشی اور غفلت کا شکار ہے۔
انور سجاد — فوٹو بشکریہ خرم سہیل
حیرت ہے کہ منٹو کی زندگی کے آخری برسوں پر بننے والی فلم کو تخلیق کرتے وقت کسی کو بھی منٹو کے اس لاڈلے شاگرد کا خیال نہ آیا۔ اس ادیب نے بھی منٹو کی طرح معاشرے کے گال پر اپنی کہانیوں کے طمانچے رسید کیے، پھر کیسے ممکن تھا کہ معاشرہ سزا میں اسے تنہائی نہ دیتا؟
یہ وہی ادیب ہے جس کے لیے منٹو نے حلقہء اربابِ ذوق، لاہور کی ایک نشست میں حاضرین کے سامنے کہا تھا ”تمہاری کہانیاں ان کو سمجھ نہیں آئیں گی۔“ ان دونوں میں معاشرے کے لیے تلخی کا باہمی احساس یکساں تھا اور یہی جرم بنا دونوں کا۔ عہدِ حاضر میں منٹو کے اس پرتو کا نام انورسجاد ہے۔ ان کے بقول ”صفیہ بھابھی نے منٹو صاحب کا ہرممکن خیال رکھا، منٹو اپنی تینوں بچیوں سے بے حد پیار کرتے تھے، یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان کی کوئی بچی گھر میں بیمار پڑی ہوتی اور وہ جتن سے کمائے ہوئے پیسوں سے دوا لانے کے بجائے شراب خرید لاتے“ (فلم میں ایسا ہی دکھایا گیا ہے)۔
انور سجاد کے مطابق ”یہ بچیاں اس وقت بہت کمسن تھیں،انہیں یاد بھی نہیں ہوگا، تو بھلا پھر وہ کون سا حوالہ ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے فلم میں منٹو کی کردار کشی کی گئی۔“ اسی طرح کئی اور مناظر بھی ہیں، جو حقیقت سے چغلی کھاتے ہیں۔ انور سجاد صاحب کی گفتگو کے بعد اسکرپٹ پر سوانحی ہونے کا گمان مشکوک ہونے لگا ہے۔ امید ہے کہ شاہد محمود ندیم اس پر ضرور اپنی رائے دیں گے۔
فلم ”منٹو“ کا آغاز باصلاحیت رقاصہ سوہائے ابڑو اور تھیٹر کے اداکار وجدان شاہ کے رقص سے ہوتا ہے، جس کے ذریعے منٹو کی افسانہ نگاری کو علامتی طور پر کامیابی سے پیش کیا گیا۔ پوری فلم میں صداکاری اور فلم کی کہانی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ صداکاری کے فرائض سرمد کھوسٹ نے نبھائے، جبکہ فلم کا مرکزی کردار ”منٹو“ بھی انہوں نے ہی ادا کیا۔
فلم میں صداکاری سے اداکاری پر آتے جاتے یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ سرمد صاحب کب کہانی سنا رہے ہیں اور کب مکالمے ادا کر رہے ہیں۔ یا تو ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی اچھی تھی کہ صداکاری میں ان کا رنگ غالب تھا، یا پھر وہ صداکاری میں اتنے ڈوبے ہوئے تھے کہ مکالموں کو بولنے کے بجائے پڑھتے ہی چلے گئے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ فلم منٹو میں سب سے مضبوط پہلو فلم کی ہدایت کاری تھا، جس کے سو فیصد مستحق بھی سرمد کھوسٹ ہی ہیں۔ فلم کے مناظر کی عکس بندی، کرداروں کی بناوٹ، ان کا تسلسل، رنگوں کا استعمال، تدوین، برقی اور صوتی تاثرات نے فلم کی کہانی کو متاثر کن بنا دیا، جس کی آڑ میں بہت کچھ چھپ گیا۔
موسیقی کے پہلو سے بھی فلم میں مجید امجد کی نظم ”کون ہے یہ گستاخ“ کو جاوید بشیر نے خوب نبھایا اور میشا شفیع نے بھی بخوبی اپنی ذمے داری ادا کی۔ پس منظر کی موسیقی بھی قابل ستائش تھی، جس کے لیے اس فلم کے موسیقار جمال رحمان کو داد ملنی چاہیے، البتہ غالب کے کلام کو بے سُرے انداز میں گانے پر اگر کبھی اعزازات دینے کا فیصلہ ہوا تو علی سیٹھی اول انعام کے حقدار ہوں گے۔ تاثیر سے عاری اس گیت میں ان کی گائیکی سے یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ استاد نصیرالدین سامی کے شاگرد ہیں۔
فلم منٹو میں اداکاروں کے انتخاب میں سب سے بڑی غلطی سرمد کھوسٹ کا خود کو منتخب کرنا تھا۔ منٹو صاحب کی کم گو اور بارعب شخصیت ان کے نرم مزاج لہجے کی متحمل نہیں ہوسکی، صرف حلیہ بنا لینے سے تو منٹو کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بقول احمد ندیم قاسمی:
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں تجھ سے ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
منٹو صاحب کی بیوی صفیہ کا کردار ثانیہ سعید نے نبھایا اور وہ فلم بینوں پر اپنے مکالموں اور چہرے کے تاثرات سے سحر طاری کرنے میں کامیاب رہیں۔ میڈم نور جہاں کے روپ میں صبا قمر نے اپنی زندگی کا یادگار کام کیا۔ منٹو کے لکھے ہوئے افسانوں کے کرداروں میں سب سے شاندار کام عرفان کھوسٹ کا ہے۔ انہوں نے مختصر کردار کے باوجود منٹو کی تحریروں کے درد اور کرداروں کی اذیت کو مکمل طور پر بیان کر دیا۔ ان کے چہرے سے بہتے ہوئے آنسوؤں میں ہجرت کرنے والوں کے دکھوں کی تپش صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ بے شک وہ ہمارے عظیم اداکارہیں۔ ان کے بعد اگر کوئی کردار اسکرین پر چھائے، تو وہ شمعون عباسی اور یُسرا رضوی ہیں، جنہوں نے خاموشی کی زبان میں سب کچھ کہہ ڈالا۔ ریحان شیخ، نمرا بچہ، عدنان جعفر اور فیصل قریشی بھی اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ ارجمند رحیم، نادیہ افگن، سویرا ندیم، ماہرہ خان اور اظفر رحمان کی اداکاری بوجھل رہی۔ ان میں سے اکثریت کردار بھرتی کے محسوس ہوئے۔
منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام
منٹو کی حقیقی بیٹیاں نگہت، نزہت اور نصرف اداکار سرمد کھوسٹ اور ثانیہ سعید کے ساتھ کھڑی ہیں— بشکریہ منٹو فلم ڈاٹ کام
شنید ہے کہ اس فلم کے بعد منٹو پر بنایا ہوا ڈراما سیریل بھی عنقریب نشر ہوگا، بقول سرمد کھوسٹ ”اس میں پوری طرح کرداروں سے انصاف کیا گیا ہے“۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، مگر اس فلم میں تو منٹو کو انصاف نہیں ملا۔ البتہ انہوں نے فلم کے میڈیم میں منٹو کو بطور موضوع منتخب کیا، اس انتخاب اور فیصلے کے لیے یقیناً وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
فلم کی عوامی تشہیر اور گفتگو کے زیادہ تر سیشن انگریزی زبان میں ہوئے۔ ایک ایسا دور جس میں کارپوریٹ سیکٹر کی مدد کے بغیر کوئی چیز نہیں بن سکتی اس میں سرمد صاحب منٹو کو کمرشلائزیشن کی دہلیز تک تو لائے، چاہے اس میں 60 برس ہی لگ گئے۔ اور کارپوریٹ والوں کی زبان تو انگریزی ہے، تو پھر فلم کی آفیشل ویب سائٹ کی زبان اردو کیسے ہوسکتی تھی؟ یا ان کی ترجیح وہ زبان کیسے ہوسکتی تھی جس میں منٹو نے لکھا اور جس کے بولنے والوں کے لیے یہ فلم بنائی گئی۔
منٹو کا اپنی قبر پر لگانے کے لیے لکھا گیا کتبہ
منٹو صاحب اپنی زندگی کے ان آخری برسوں میں بہت متحرک تھے، ان کی ادبی سرگرمیاں، دوستیاں، عدالتی کارروائیاں اور دیگر پہلو فلم میں پوری طرح شامل نہ ہونے سے یہ فلم ادھوری اور کہانی تشنہ محسوس ہوئی۔ کارپوریٹ سیکٹر کا منٹو فلم میں بہت بے بس دکھائی دیا، جبکہ وہ حقیقی زندگی میں کافی بے باک اور جرات مند شخص تھے۔
فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ بہت عمدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے مستقبل میں ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن فلم کے میڈیم میں منٹو کو تسخیر کرتے وقت اگر وہ ذہن نشین رکھتے کہ فلم ڈراما نہیں ہوتی اور اگر وہ سوانحی ہو، پھر تو اس میں ڈرامے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہوتی، تو بہت سی تکنیکی غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ میں نے سرمد صاحب کاموقف لینے کے لیے متعدد بار ان سے رابطہ کیا، ہر بار انہوں نے ایک نئے وعدے کے ساتھ ٹال دیا۔ وہ اس فلم پربات کر لیتے تو شاید معلومات میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا۔
منٹو کے چاہنے والوں کا بھی منٹو پر اتنا ہی حق ہے جتنا سرمد صاحب کا۔ وہ منٹو پر بات کرنے کے بجائے سعادت حسن پر بنائی گئی فلم کی ”تشہیر اور فروغ کی سرگرمیوں“ میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں شاید یاد ہی نہ رہا کہ میں اور منٹو ان کا انتظار کر رہے ہیں۔