آرم سٹرانگ کی کمپنی میں 150 ملازمین کام کرتے ہیں اور اس کی سالانہ آمدن تقریباً ایک کروڑ ڈالر ہے
کیتھل آرم سٹرانگ اُس وقت صرف 19 برس کے تھے جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ڈبلن میں اپنے پہلے ریستوران کا آغاز کیا تھا۔
انھوں نے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’یہ آغاز سے ہی تباہ کن تھا۔‘
’ہمارے پاس کاروبار کرنے کا لائسنس تھا اور نہ ہی صحت کا سرٹیفیکیٹ (ہیلتھ پرمٹ) تھا۔ کون جانتا تھا کہ اِس سب کے لیے اِن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ مشکلات بڑھتی جا رہی تھیں لیکن کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا اور پیسہ بھی ختم ہونے لگا تھا۔‘
ایک سال سے بھی کم عرصے میں ریستوران بند ہوگیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے اُن دس مہینوں میں بہت کچھ سیکھا جو میں کالج کے چار سال میں بھی نہیں سیکھ سکتا تھا۔‘
یہ سچ ثابت ہوا۔ آرم سٹرانگ جو اب 46 سال کے ہیں آج دو دہائیوں بعد ’ایٹ گڈ فوڈ گروپ‘ چلارہے ہیں جس کے زیر انتظام ریستوران ایو، ایمنس اور سوسائٹی فئیر کام کررہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بار بھی چل رہے ہیں۔
کمپنی میں 150 ملازمین کام کرتے ہیں اور اس کی سالانہ آمدن تقریباً ایک کروڑ ڈالر ہے۔
امریکہ کے دارالحکومت سے چند میل دور ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں قائم ریستوران میں انھوں نے فلمی ستاروں، مختلف صدور، اور کروڑ پتی شخصیات کے لیے کھانا بنایا اور دیگر کئی مشہور شخصیات کی میزبانی کی ہے۔
’ریستوران میں ایک اچھے کھانے کے لیے 200 ڈالر ادا کرنا زیادہ قیمت نہیں، یہ مہنگا ہے‘
انھوں نے تھائی لینڈ میں امریکی کھانوں کے فروغ کے لیے امریکہ کی نمائندگی کی اور سکولوں کے لیے صحت مند کھانوں کی حمایت پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے انھیں تبدیلی کے چیمپئین کا خطاب دیا گیا۔
تو کس طرح ایک کالج سے نکالا ہوا اور خود کو بوتلیں صاف کرنے والا آئرلینڈ کا ایک شہری خطے کے سب سے مقبول شیف میں سے ایک بن گیا جس کو کامیابی، طاقت اور پیسے کا جنون ہو؟
اپنے کرئیر کے متعلق آرم سٹرانگ کا کہنا ہے کہ اس سفر میں ملنے والے چند مواقع اور ان کے عروج کو قمسمت سے منسوب کرنا آسان ہے، لیکن ریستوران کی صنعت کا مکمل علم ، منکسر مزاج طبیعت اور بہترین کاروباری شعور، محنت اور ہمت سے حاصل کیا ہے۔
آرم سٹرانگ نے سنہ 1969 میں ڈبلن میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو لذیذ اور مزیدار کھانے بناتا تھا۔
ان کے والد زیادہ تر کھانا خود بناتے تھے اور گھر کے عقب میں واقع باغ میں سبزیاں خود کاشت کرتے تھے۔ رات کا کھانا ہمیشہ کھایا جاتا تھا جس میں میٹھے سمیت تین مختلف کھانے ہوتے تھے۔
جب آرم سٹرانگ سات سال کے تھے تو انھیں فرانس کے ساتھ تبادلے کے دورے کے پروگرام میں اکیلے فرانسیسی زبان سیکھنے کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ یہ دورےگرمیوں کی ایک رسم یا تقریب سی بن گئے تھے اور اِن سالوں میں اُن کے اندر فرانسیسی کھانوں کا شوق پیدا ہوگیا۔
آرم سٹرانگ کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ایک بڑے ریستوران میں کام کرنا شروع کیا تو انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں
انھیں کالج جانے کا کوئی شوق نہیں تھا اور کالج ترک کرنے سے قبل انھوں نے دو ماہ کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم میں صرف کیے۔ اس کے بعد ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ امریکہ اُن کے لیے اچھی جگہ ہے اور اُن کا سامان باندھ کر انھیں واشنگٹن کے مضافات میں اُن کے دوستوں کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا گیا جہاں آرم سٹرانگ کو ایک آئرش بار میں نوکری مل گئی۔
’میں کچھ نہیں جانتا تھا۔‘
ایک چیز دوسری کی جانب رہنمائی کر رہی تھی، والد کی طرف سےگھر واپس بلائے جانے کو نظرانداز کرنے اور امریکہ کی سرکاری لاٹری میں گرین کارڈ جیتنے کے بعد وہ واشنگٹن کے اونچے درجے کے ریستوران ’ویڈالیا‘ چلے گئے جہاں انھوں نے ’سنجیدگی سے کھانا پکانا‘ سیکھنا اور کچن میں کام کرنا شروع کر دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے واقعی میں کوئی علم نہیں تھا کہ میں کیا کر رہا تھا۔‘
’بہت سارے ریستوران گوشت کے ٹکڑے کو گرم پلیٹ میں رکھتے اور اس کے بعد اس کو اون میں رکھ کر جلا دیتے۔ آپ اسے اس وقت باہر نکالنا چاہیے جب آپ یہ سمجھیں کہ یہ تیار ہے اور امید ہے کہ یہ میڈیم ریئر (اوپر سے پکا ہوا اور اندر سے گلابی مائل) یا جس طرح کا آرڈر دیا گیا ہو اس طرح سے تیار ہو۔‘
ویڈالیا کا معیار بہت اعلیٰ تھا جیسا کہ آرم سٹرانگ کو کچن میں اپنے نئے سال کی پہلی شام کے دوران معلوم ہوا۔
’کم سے کم 60 سٹیک زیادہ پک جانے کی شکایات کے ساتھ واپس آگئے۔ آخر کار شیف مجھ پر چلا اٹھے کیوں کہ یہ تباہ کن تھا۔ شکر ہے کہ مجھے نوکری سے نہیں نکالا گیا۔ کبھی کبھی اس طرح کا تجربہ بھی آپ کے لیے سیکھنے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔ میں اگلے روز واپس گیا اور دوبارہ سے کوشش شروع کی اور اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش شروع کر دی۔‘
آرم سٹرانگ اپنی بیوی کے ساتھ کام کرتے ہیں جو ریستوران میں مینیجر ہیں
اس کے بعد سے انھوں نے مسلسل بہتر کام کیا جس کی وجہ سے سنہ 1998 میں ویڈالیا کے مالک نے انھیں بیسٹرو بس کا شیف بننے کا کہا۔ بیسٹرو بس کیپیٹل ہل کا ایک تاریخی ریستوران ہے اور یہ قانون دانوں اور ترغیب دینے والوں (لابیسٹوں) کا پسندیدہ ٹھکانہ ہے۔
’تقریباً چار سالہ کورس کے دوران میں نے یہاں ہلیری کلنٹن، ٹونی کرٹس، مارٹینا نیوریٹیلووا سمیت کئی مشہور شخصیات کے لیے کھانا بنایا۔ جب مائیکل جے فوکس اور محمد علی پارکنسنز کی بیماری سے متعلق کانگریس سے بات کرنے کے لیے آئے تو انھیں کھانا میں نے بنا کر کھلایا۔ یہ ایک خوشگوار اور حیرت انگیز تجربہ تھا۔‘
’ اِن سب مشہور شخصیات کے لیے کھانا پکانے کے بعد میں نے اُن لوگوں سے ملنا شروع کر دیا جن کے پاس سرمایہ تھا اور وہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادہ تھے، تو ہم نے جگہ تلاش کرنا شروع کر دی جہاں ہم اپنا ریستوران کھول سکیں۔‘
آرم سٹرانگ انتہائی محتاط تھے، جب ان سے ایک مالیاتی پیکیج میں سے 40 لاکھ ڈالر بطور قرض لینے کا کہا گیا۔ انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’ مجھے رات میں نیند کی ضرورت ہے۔‘
آخرکار 2004 میں وہ اور اُن کی اہلیہ مشعل نے، جو ایک ریستوران کی مینیجر بھی تھیں، ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں ایو نامی ریستوران کی ابتدا کی جس کو ایک مقامی کاروباری گروپ کی حمایت حاصل تھی۔ انھوں نے اس کے لیے 20 لاکھ ڈالر کا معمولی قرض لیا۔
’سنہ 2007 میں معاشی بحران سے قبل اپنے عروج کے دور میں ریستوران ایو بہت شاندار تھا اور اپنے آپ میں بھاگ رہا تھا۔ لیکن معاشی صورتحال سے متاثر ہونے کے بعد یہ صنعت اس طرح سے بحال نہ ہوسکی۔‘
مجھے یہ احساس ہوا کہ ماحول سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس سے ہم لوگوں پر اثر ڈال سکتے ہیں حتیٰ کہ امریکہ کے صدر پر بھی
’مجھے لوگوں کو مہنگائی اور قیمتوں میں زیادتی کا فرق بتانا پڑ رہا تھا۔ قیمتوں میں زیادتی یہ ہے کہ میٹھے پانی کے کین کے دو ڈالر لیے جائیں۔ ریستوران میں ایک اچھے کھانے کے لیے 200 ڈالر ادا کرنا زیادہ قیمت نہیں، یہ مہنگا ہے۔‘
2011 میں امریکی صدر اوباما اس وقت خلاف توقع اُن کے ریستوران پہنچے جب وہ اور امریکی خاتون اول مشعل اوباما اپنی شادی کی سالگرہ منانے کے لیے آئے۔
آرم سٹرانگ اس دن اتفاق سے چھٹی پر تھے۔ ریستوران کے جنرل مینیجر نے ان کے گھر پر فون کیا اور کہا:’ آپ کو یہاں آنا پڑے گا کیوں کہ اوباما آدھے گھنٹے میں یہاں ہوں گے۔‘
’ وہاں ہر طرف سکیورٹی تھی لیکن وہ ایک ٹیبل پر بیٹھے تھے اور انھوں نے ہر کسی کی طرح ڈائننگ روم میں کھانا کھایا۔ سب سے الگ چیز جو انھوں نے کی وہ یہ تھی کہ بار میں موجود مہمانوں کو پابند کر دیا گیا کہ جب وہ آئیں یا جا رہے ہوں تو آپ اپنی جگہ سے نہ ہلیں۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ ان کےگرد ایک چھوٹی سی فوج موجود تھی۔‘
اس کامیابی کے باوجود آرم سٹرانگ اب بھی ہفتے میں 90 سے 100 گھنٹے کام کرتے ہیں۔
’یہ ایک مشکل کاروبار ہے، آپ یہ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ آپ اس سے پیار کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں مزا آتا ہے۔ ابتدا میں مجھے لگتا تھا کہ یہ کوئی اہم کام نہیں ہے، یہ صرف ایک کھانا ہے نہ تو آپ کینسر کا علاج کر رہے ہیں اور نہ لوگوں کو چاند پر بھیج رہے ہیں۔
’ لیکن پھر مجھے یہ احساس ہوا کہ ماحول سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس سے ہم لوگوں پر اثر ڈال سکتے ہیں حتیٰ کہ امریکہ کے صدر پر بھی۔ تو یہ بہت ضروری ہے اور یہ کسی بھی طرح صرف ایک کھانا نہیں ہے۔‘