واشنگٹن : امریکی صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے امیدوار کی دوڑ میں شامل بین کارسن اپنے اس بیان پر قائم ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی مسلمان کو امریکہ کا صدر نہیں ہونا چاہئے ۔اگرچہ اپنے پہلے بیان میں تھوڑی تبدیلی کرتے ہوئے بعد میں مسٹر کارسن نے کہا کہ ان کا اشارہ بنیاد پرست مسلمانوں کے لئے تھا ناکے اعتدال پسند مسلمان کے لئے ۔ریپبلکن امیدوار کی دوڑ میں آگے چلنے والے امیدواروں میں سے ایک مسٹر کارسن نے کل ‘این بی سی’ کے ‘میٹ دی پریس’ پروگرام میں کہا تھا کہ وہ اس بات کی وکالت نہیں کریں گے کہ کسی مسلمان کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور سونپ دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ صدر کا مذہب ملک کے آئین کے ساتھ منسلک ہونا چاہئے اور مسلمان اس پیمانے پر کھرا نہیں اترتے ۔حالانکہ اُنھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی آیا اسلام کس طرح سے آئینی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔کارسن کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ہفتے ریپبلیکن صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے ، نیو ہیمپائر میں ایک تقریب کے دوران، ایک شخص کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی، جس نے صدر براک اوباما کو غلط طور پر ایک مسلمان قرار دیا، اور کہا کہ ‘اِس ملک میں مسلمان ایک مسئلہ ہیں’ ۔
ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ کے لیے باضابطہ امیدوار نامزد کرنے میں ابھی چار ماہ سے زیادہ وقت باقی ہے ۔ امریکہ میں کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ کے بعد، مقبولیت میں کارسن دوسرے امریکن اسلامک ریلیشنز کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عواد نے مسٹر کارسن کے بیان کو امریکی آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا وہ امریکہ کی قیادت کرنے کے لئے نااہل ہیں اور انہیں صدر کے عہدے کی دوڑ سے باہر نکل جانا چاہئے ۔ کارسن کے اس کے تبصرے پر صدارتی عہدے کے ان کی ریپبلکن پارٹی کے حریفوں نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں صدر کے لئے مذہب کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ۔کارسن نے اتوار کے روز ‘این بی سی’ کے ‘میٹ دِی پریس’ پروگرام میں کہا تھا کہ ‘میں اس بات کی وکالت نہیں کروں گا کہ ہم کسی مسلمان کو قوم کا سربراہ بنائیں۔ میں اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کروں گا’۔